1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈپریشن: مرض، اسباب اور علاج

1 دسمبر 2009

اداسی، مایوسی، بیزاری اور ان جیسے دوسرے ذہنی تناؤ کے باعث عوامل انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ کبھی کبھی ان عوامل کی کوئی ٹھوس وجہ ہوتی بھی ہے اور کبھی نہیں بھی۔

https://p.dw.com/p/KnDS
تصویر: picture-alliance/dpa

ذہنی تناؤ کی عمومی کیفیت ایک یا دو ہفتوں میں خودبخود آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہیں۔ اس دورانیے میں دوستوں کی سنگت اور عزیز و اقارب سے بات چیت نہایت سود مند ہوتی ہے۔ تاہم اگر یہ علامات مسلسل ہوں اور کوئی شخص بغیر علاج کرائے ان علامات اور عوامل سے باہر نہ نکل پائے، تو اس کیفیت کو ڈپریشن کہتے ہیں۔

ڈپریشن کی شدت اور دورانیہ عمومی اداسی یا مایوسی سے زیادہ طویل ہوتے ہیں۔ اس مرض کی علامات میں بیشتر اوقات اداسی یا مایوسی، دل برداشتہ ہونا اور تفریح میں کمی، فیصلے کرنے میں مشکلات، جسمانی تھکن، بے چینی اور چڑچڑاپن، بھوک میں کمی یا اضافہ اور وزن کا گھٹنا یا بڑھنا، نیند میں کمی اور جلد جاگ جانا، خود اعتمادی کی قلت اور خود کشی کے خیالات شامل ہیں۔ عمومی طور پر ان میں سے چار یا پانچ علامات بھی کسی شخص میں موجود ہوں تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہے۔

Symbolbild Depression, Trauer, Angst, Neurose
ڈپریشن کی ٹھوس وجہ ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھیتصویر: Bilderbox

اس مرض کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اکثر وبیشتر ڈپریشن کی نشاندہی نہیں ہو پاتی، جس کے باعث روزمرہ زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو مصروف کرنے کی کاوش میں ڈپریشن سے جدوجہد کی جاتی ہے اور ان تدابیر سے کوئی شخص مزید پریشانی اور تھکن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ڈپریشن کی ٹھوس وجہ ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ ہر فرد کا تجربہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ عمومی طور پر ناامیدی، کسی قریبی شخص یا چیز کا کھو جانا، کوئی ناگہانی واقعہ اور ناکامیابی اہم وجوہات سمجھی جاتی ہیں۔ کئی مرتبہ بظاہر ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی جو کہ مریض کی افسردگی کا سبب ہو۔ انسان میں واقعات کی شدت کو کم کرنے اور بھول جانے کی قدرتی صلاحیت کے باعث زیادہ تر افراد ان حالات سے نبرد آزما ہو کر عام زندگی کی طرف لوٹ آتے ہی تاہم کچھ لوگ اس کسی صدمے سے نہیں نکل پاتے۔ ڈپریشن کی وجہ سے انسان کسی موذی اور تکلیف دہ مرض کا شکار بھی ہو سکتا۔

Mann mit Depressionen
کوئی شخص بغیر علاج کرائےذہنی تناؤباہر نہ نکل پائے، تو اس کیفیت کو ڈپریشن کہتے ہیںتصویر: Bilderbox

خواتین میں ذہنی تناؤ کے اس مرض کی شرح مردوں کے مقابلے میں نسبتا زیادہ دیکھی گئی ہے۔ یہ مرض موروثی طور پر بھی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو سکتا ہے۔ ایک سائنسی تحقیق کے مطابق اگر کسی شخص کے والدین کو ڈپریشن لاحق ہے تو اس شخص میں اس مرض کی منتقلی کے چانسلر دوسروں افراد کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

اس مرض کے علاج میں مریض کے قریبی ساتھی، دوست، احباب یا رشتہ دار اہم تصور کئے جاتے ہیں۔ ڈپریشن کی صورت میں مرض کو چھپانا اور اپنی کیفیت کا کسی شخص سے اظہار نہ کرنا مزید پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے۔ بھرپور نیند اور متوازن إذا بھی اس مرض سے نجات یا کمی کے لئے نہایت موثر ہیں۔ کچھ لوگ سونے سے پھلے ٹی وی دیکھنا، ریڈیو سننا یا پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ اس مشق سے بھی بیچینی میں قدرے کمی آتی ہے اور نیند بھی بہتر ہوتی ہے۔ سائنسی تحقیق میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس مرض میں مبتلا کوئی شخص اگر اپنی کیفیات لکھے تو بھی اس مرض کی شدت میں خاصی کمی ہوتی ہے۔

بعض صورتوں میں ڈپریشن کا تجربہ کسی شخص کی شخصیت میں نکھار کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اور اس مرض سے باہر نکل جانے کے بعد کوئی شخص مضبوط انسان کے طور پر نمودار ہو سکتا ہے۔ معمولی درجے کی ڈپریشن کا علاج آسان بات چیت کے ذریعے بھی ممکن ہے۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : عاطف بلوچ