ڈھاکا حکومت کو دہشت گردی کے خلاف فعال ہونا پڑے گا، تبصرہ
5 جولائی 2016ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار عرفات الاسلام لکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں دہشت گردی کی تازہ لہر کا تعلق ایک طرح سے پانچ فروری 2013ء کے مظاہروں سے بھی بنتا ہے۔ تب ڈھاکا کے ایک نواحی علاقے شاہ باغ میں ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا تھا۔ مظاہرین ان تمام افراد کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کر رہے تھے، جو 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران ہونے والے قتل عام میں ملوث تھے اور جنہوں نے آزادی کی تحریک کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ ان افراد پر الزام ہے کہ یہ پاکستانی فوج کے ساتھ مل کرعام شہریوں کے قتل عام میں شریک تھے۔ اس طرح یہ لوگ جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے تھے اور ان میں مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کی تعداد نمایاں طور پر زیادہ تھی۔
عرفات الاسلام کے مطابق اسی وجہ سے بنگلہ دیش کی مسلم قوتیں ’’شاہ باغ‘‘ تحریک کو اپنے ایک دشمن کے طور پر دیکھتی ہیں۔ اس تحریک کو سماجی ویب سائٹس اور انٹرنیٹ پر سرگرم افراد نے جلا بخشی اور اسی وجہ سے یہ لوگ بلاگرز کو برائی کی جڑ سمجھنے لگے۔ مذہب کی جانب جھکاؤ رکھنے والے اخبارات نے ثبوت کے طور پر ان بلاگرز کی ان تصانیف کو شائع کیا، جن میں مذہب کو تنقیدی نگاہ سے دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد شدت پسند مسلم شہری سڑکوں پر نکلے اور ان بلاگرز کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا۔ اس سلسلے میں مئی 2013ء میں شدت پسندوں نے ایسے 84 بلاگرز اور انٹرنیٹ پر سرگرم افراد کے ناموں کی فہرست جاری کی، جنہیں وہ مجرم سمجھتے تھے۔ ان میں نصف سے زائد کو یہ جنونی افراد قتل کر چکے ہیں جبکہ بقیہ کے پاس بیرون ملک نقل مکانی کے سوا کوئی اور چارہ نہیں بچا تھا۔
عرفات مزید لکھتے ہیں کہ عوامی لیگ کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی انتظامیہ مسلم شدت پسندی کے خلاف مؤثر اقدامات نہیں کر رہی بلکہ ان کے جانب مصالحانہ پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ حکومت نے بلاگرز کے قاتلوں کو سخت سزائیں دینے کی بجائے اسلام پر تنقید کرنے سے خبردار کیا ہے۔ حکومت اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حزب اختلاف پر بھی دباؤ بڑھا رہی ہے۔عرفات کے بقول ڈھاکا حکومت کا بنیاد پرستوں کے خلاف یہ نرم اور مدافعانہ رویہ الٹا بین الاقوامی سطح پر سرگرمِ عمل ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو اس جنوبی ایشیائی ملک میں اپنا ایک اسٹریٹیجک اڈہ قائم کرنے کی دعوت دینے کے مترداف بھی ہے۔