ڈیزل کی بڑھتی قیمتیں، مشرقِ وسطیٰ کے عوام بجلی سے محروم
10 اپریل 2022عراق میں ہر شخص کھانے کے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہے۔ یوکرین میں جاری جنگ کے باعث عراق میں پہلے ہی اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ لیکن مشرقِ وسطیٰ کو اس وقت فقط یہ مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ ڈیزل کی قیمتیں اس وقت بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں ہیں۔ اس خطے میں ڈیزل کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ جب سرکاری بجلی گھروں سے بجلی کی فراہمی معطل ہو جاتی ہے تو اس تیل کی وجہ سے چلنے والے ذاتی جنریٹروں سے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
بغداد میں صحافت کے شعبے سے منسلک خلود رمیزی کے مطابق گزشتہ سال موسمِ گرما میں ڈیزل کی قیمتوں کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا، ''پچھلے سال ہم بجلی کی فی ایمپئیر کی قیمت 10 امریکی ڈالر ادا کر رہے تھے اور اس سال یہ 16 امریکی ڈالر کو پہنچ گئی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اس سال گرمیوں میں یہ قیمتیں مزید بڑھ نا جائیں۔‘‘
یوکرین میں جنگ نے صرف تیل کی قیمتیں نہیں بڑھائی بلکہ یہ گندم کے بحران کا سبب بھی بنی ہے۔ لبنان میں آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتیں عوام کے لیے تشویش کی وجہ بنی ہوئی ہیں۔ لیکں وہاں کی عوام گرمی کی شدت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے روٹی کی قربانی دینے کو تو تیار ہیں لیکن بغیر بجلی کی سخت گرمی اور آلودگی میں رہنے سے گریز کرنے کو ترجح دیتے ہیں۔
متبادل حل کی ضرورت
ڈیزل کی قیمتیں عراق اور لبنان جیسے ممالک میں بجلی کی قیمتوں کا تعین کرتی ہیں کیونکہ حکومت کے زیر انتظام پاور گرڈ برسوں سے ملکی سطح پر بجلی کی ضروریات کو مناسب طریقے سے پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ملک کو دن کے صرف چند ہی گھنٹے برقی توانائی مہیا کی جاتی ہے اور باقی کمی پورے کرنے کے لیے پرائیویٹ اداروں کی جانب سے فراہم کردہ بجلی پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ یوکرین میں جنگ کی وجہ سے عراق، لبنان، شام اور یمن جیسے ممالک میں بجلی مزید مہنگی ہو جانے کے خدشات ہیں اور گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتے ہی ڈیزل کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی۔
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ
ماہرین روس کی یوکرین میں جاری جارحیت کو تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم مشرقِ وسطیٰ کے ان ممالک میں تیل کی قیمتیں یوکرین اور روس کے مابین جنگ چھڑنے سے قبل ہی بہت زیادہ تھیں۔ اس کی ایک اور وجہ کورونا وبا کے دوران تیل کی پیداوار اور ترسیل کے مسائل بھی تھے۔ جاویر بلاس بلومبرگ ادارے کے کالم نگار ہیں اور توانائی کے شعبے میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ اس مسئلے پر کہتے ہیں، ''یوکرین اور روس کی جنگ نے پہلے سے خراب حالات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔‘‘
لبنان کے بحران میں اضافہ
بغداد میں صورتِ حال کی وضاحت کرتے ہوئے رمیزی نے کہا کہ وہاں حکومت دن میں دو سے پانچ گھنٹے تک ہی بجلی کی فراہمی ممکن بنا پاتی ہے۔ اور موسمِ گرما میں حالات اس سے بھی خراب ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بغداد میں صاحبِ استطاعت لوگ اپنے لیے ڈیزل خرید کر بجلی کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔ لیکن کم آمدن والا طبقہ ایسا کرنے سے قاصر ہے۔ بیروت میں لبنان، شام اور عراق کے لیے ہینرک بول فاؤنڈیشن کے دفتر کی سربراہ اینا فلیشر نے کہا، لبنان میں، ڈیزل کی بڑھتی قیمتیں وہاں جاری سیاسی اور مالیاتی بحران میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''لبنان میں بجلی کی تقریبا تمام تر فراہمی پرائیویٹ جنریٹرز سے ہو رہی ہے۔‘‘
متوقع عوامی مظاہرے
عراق میں عموما موسمِ گرما کی آمد کے ساتھ ہی ڈیزل کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے عوام اس مسئلے پر حکومت کے خلاف احتجاج بھی کرتے رہے ہیں۔
لبنان میں، ڈیزل کی زیادہ قیمتیں صرف ایک مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ اس سے پہلے سے ہی پریشان حال لبنانی معیشت میں افراط زر میں اضافہ ہو گا۔ ماہرین کے مطابق اس سے عوام میں سماجی تناؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔ عراق میں اس سے پہلے بھی بجلی اور دیگر عوامی خدمات کی کمی کی وجہ سے حکومت مخالف مظاہرے دیکھے جا چکے ہیں۔
بصرہ میں، جہاں گزشتہ سال درجہ حرارت 53 ڈگری سیلسیس تک بڑھ گیا تھا، وہاں 2015ء کے بعد سے ہر موسم گرما میں مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ 2018ء میں یہ شدید اور پرتشدد ہو گئے۔ ان مظاہروں کی وجہ سے ملک میں حکومت کی تبدیلی ہوئی۔
رمیزی نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ موسمِ گرما میں عراق میں شدید گرمی پڑنے کے امکانات ہیں اور عوام بجلی خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لیکن عوام کیا کر سکتے ہیں؟ اگر قیمتیں بڑھتی ہیں تو ان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔