ڈی ڈبلیو کا پہلا آزادی اظہار ایوارڈ، سعودی بلاگر بدوی کے نام
25 فروری 2015ڈوئچے ویلے کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لِمبورگ نے بتایا کہ رائف بدوی کو آزادی اظہار کا اعزاز دینے کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا گیا ہے۔ ’’وہ انتہائی بیباکی سے اور بلا خوف و خطر آزادیِ اظہار اور انسانی حقوق کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور ہماری طرف سے اُنہیں یہ ایوارڈ دینا ان کی کوششوں اور ان کے موجودہ حالات کو ایک مرتبہ پھر ذرائع ابلاغ میں نمایاں کرنا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم اس طرح سعودی حکام پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور رائف بدوی کو آزادی نصیب ہو گی۔‘‘
اس موقع پر رائف بدوی کی کینیڈا میں مقیم اہلیہ انصاف حیدر نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ ’’ڈوئچے ویلے کا آزادی اظہار کا یہ ایوارڈ سعوی حکومت کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ رائف ابھی تک جیل میں ہیں اور ایک ایسے وقت پر جب جدہ میں حکام دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کےخلاف لڑ رہے ہیں۔ میں اس موقع پر ڈوئچے ویلے کے تعاون کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔‘‘
ڈوئچے ویلے گزشتہ گیارہ برسوں سے انٹرنیٹ پر انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد میں بیسٹ آف بلاگز یعنی بوبس bobs ایوارڈ تقسیم کر رہا ہے۔ اس سال آزادیِ اظہار کا ایوارڈ بھی اسی موقع پر دیا جائے گا۔ یہ دونوں انعام 23 جون کو ڈی ڈبلیو کی میزبانی میں منعقد ہونے والے ذرائع ابلاغ کے سالانہ بین الاقوامی اجلاس’ گلوبل میڈیا فورم‘ کے دوران دیے جائیں گے۔
رائف بدوی گزشتہ کئی برسوں سے سعودی عرب میں آزادی اظہار کے حق کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے’سعودی عریبیئنز لبرل‘ نامی ایک ویب سائٹ بھی بنائی اور سیاسی اور معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنا شروع کیا۔ مثال کے طور پر بدوی نے سعودی عرب میں پولیس کے خلاف طنزیہ کالم بھی اپنی ویب سائٹ پر شائع کیے۔ انہوں نے ملک کی ایک بڑی اور معروف یونیورسٹی کو دہشت گردی کی آماجگاہ سے تعبیر کیا اور پابندی ہونے کے باوجود ویلٹنائن ڈے پر بھی اظہار خیال کیا۔
2008ء میں انہیں ایک اسلام مخالف ویب سائٹ بنانے کی پاداش میں پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا تھا۔ اس موقع پر رائف بدوی مختصر عرصے کے لیے سعودی عرب سے باہر چلے گئے تھے اور مقدمات خارج ہوتے ہی واپس وطن پہنچ کر دوبارہ اپنی پہلے جیسی مصروفیات میں جت گئے تھے۔
2009ء میں جدہ حکام نے ان کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی تھی اور 17 جون 2012ء کو انہیں ایک مرتبہ پھر پابند سلاسل کر دیا گیا تھا۔ اس مرتبہ انہیں مذہبی رہنماؤں کا مذاق اڑانے کے الزامات کے تحت عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے انہیں دس سال قید اور ایک ہزار کوڑوں کی سزا سنائی۔ استغاثہ نے اُن پر مرتد ہونے کے الزام میں مقدمہ چلانے پر زور دیا تھا تاہم جج نے یہ درخواست رد کر دی تھی۔ سعودی عرب میں مرتد کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس دوران اُن کی اہلیہ تین بچوں کے ساتھ کینیڈا منتقل ہو گئی تھیں، جہاں بدوی خاندان نے سیاسی پناہ حاصل کر لی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا موقف ہے کہ بیس ہفتوں کے دوران ایک ہزار کوڑے بھی موت کی سزا سے کم نہیں ہیں۔ رائف بدوی کو نو جنوری کو پہلے پچاس کوڑے مارے جا چکے ہیں تاہم زخموں کی وجہ سے اُن کی اس سزا کو ملتوی کر دیا گیا تھا۔ طبی ماہرین کے بقول رائف بدوی کا جسم فوری طور پر مزید کوڑوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔