کراچی میں قتل و غارت گری تیسرے روز بھی جاری
4 اگست 2010کراچی میں فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر خونریز فسادات کی ایک تاریخ موجود ہے۔ یہی تاریخ گزشتہ دو دنوں میں کراچی میں پھر دہرائی گئی۔ اس مرتبہ خونریزی کا آغاز حکومت میں شامل حلیف جماعت ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی کے قتل کے بعد ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ پیر کی شام شہر کے مختلف مقامات پر ایک مخصوص لسانی گروپ نے پینتیس افراد کو ہدف بنا کر قتل کیا، دوسرے روز انیس جبکہ تیسرے روز سات افراد کو ہدف بنا کر قتل کیا۔
رات رات بھر شہر کے مختلف علاقوں میں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی۔ شہر میں فائرنگ سے جدید ہتھیاروں کی موجودگی کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ملک کی اقتصادی شہ رگ کراچی کا استحکام اور امن خطرے میں ہے اور اگر یہ شہر متاثر ہوگا تو ملک کی معیشت بھی کمزور ہوگی۔
کراچی چیمبرز آف کامرس کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ ایک روز کے احتجاج اور ہڑتال سے دس ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی کے قتل کی ذمہ داری انتہا پسند لشکر جھنگوی پر عائد کی ہے۔
وزیر داخلہ کی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کراچی شہر میں طالبان کی موجودگی کی تصدیق کر رہے ہیں اور یہی الزام ایم کیو ایم ماضی میں لگاتی رہی ہے۔
حکومت کی حلیف دونوں جماعتیں ایم کیو ایم اور اے این پی کےدرمیان کشیدگی اور محاذ آرائی ہر گزرے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ آج تیسرے روز بھی فائرنگ کا تبادلہ ایسے علاقوں میں جاری ہے، جہاں اردو اور پشتو بولنے والوں کی آبادیاں ساتھ ساتھ ہیں۔ شہر کی سڑکوں پر جگہ جگہ جلی ہوئی گاڑیاں، جنگ زدہ علاقہ کا منظر پیش کر رہی ہیں۔
دونوں حلیف جماعتوں کی کشیدگی سے سب سے زیادہ متاثر کراچی کا بازار حصص، اور تجارتی علاقے ہوتے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار بھی یہاں سرمایہ کاری کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ مبصرین کے بقول اُن کی اس گھبراہٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قبائلی علاقوں سے آپریشن کے بعد فرار ہونے والے کئی سرکردہ طالبان رہنما کراچی میں روپوش ہیں۔
حکومتی مشینری تمام دعووں کے باوجود شہر میں ہدف بنا کر قتل کرنے کی وارداتوں کو روکنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
آج بھی کراچی میں اعلیٰ سطح کا ایک اجلاس صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی صدارت میں منعقد ہوا۔ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے اقدامات کی ہدایات کے علاوہ رینجرز اور پولیس کو شر پسندوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا اختیار دیا گیا ہے۔
اِس قسم کے اقدامات ماضی میں بھی کئے جاتے رہے ہیں مگر اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
حکومت اور خفیہ ادارے ٹارگٹ کلنگز میں ملوث گروپوں سے بخوبی آگاہ ہیں مگر ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے نہیں کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: امجد علی