کراچی میں کشیدگی، مزید ہلاکتیں
15 جنوری 2011پاکستان کے تجارتی مرکز اور سندھ کے صوبائی دارالحکومت میں پولیس نے آج ہفتے کے روز بتایا کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں پرتشدد واقعات کی تازہ لہر کے دوران گزشتہ دو روز میں مزید کم ازکم سترہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
کراچی پولیس کے سربراہ فیاض لغاری نے خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ مقتولین میں ایک مقامی ٹیلی وژن چینل کا ایک رپورٹر بابر ولی بھی شامل ہے، جسے لیاقت آباد میں اپنے دفتر سے گھر جاتے ہوئے اس کی گاڑی روک کر قتل کر دیا گیا تھا۔ کراچی میں شہری ہلاکتوں کے ایسے واقعات کو ہدف بنا کر قتل کرنے یا ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کہا جاتا ہے اور گزشتہ برس اس طرح کے واقعات میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد سینکڑوں میں رہی تھی۔
کراچی میں، جہاں لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تشدد کی تاریخ برسوں پرانی ہے، یہ خدشات کافی زیادہ ہو چکے ہیں کہ ہلاکتوں کا یہ سلسلہ آئندہ دنوں میں شدید تر بھی ہو سکتا ہے، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی اتحادی اسلام آباد میں موجودہ وفاقی حکومت کے لیے ایک نئے بحران کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔
تجزیہ نگار اور سکیورٹی ذرائع کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے ان واقعات کی ذمہ داری زیادہ تر شہر کی دو بڑی سیاسی جماعتوں متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے سر ڈالتے ہیں، جو دونوں ہی اسلام آباد کی وفاقی حکومت میں پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعتیں ہیں۔
ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان کھچاؤ کی ایک وجہ کراچی میں پشتون سماجی اقلیت کی آبادی میں مسلسل اضافہ بھی ہے۔ ان حالات میں قتل کے بعد انتقامی قتل کے واقعات دونوں پارٹیوں کے کارکنوں یا حامیوں کی ہلاکتوں کی وجہ بھی بنتے ہیں اور ان میں بہت سے عام شہری بھی مارے جاتے ہیں، جس کا محرک لسانی کشیدگی ہوتی ہے۔
پاکستان میں وفاقی حکومت کے لیے کراچی میں پر تشدد واقعات کو روکنا ایک بڑی ترجیح ہے لیکن ساتھ ہی حکومت کو طالبان کی مسلح مزاحمت اور خونریز حملوں کا سامنا بھی ہے، جس کے ساتھ ساتھ حکومت گزشتہ برس اگست میں آنے والے تباہ کن سیلابوں کے بعد ملکی معیشت میں بہتری کی کوششوں کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتی۔
یہ تمام عوامل وہ ہیں جو ملکی معیشت پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں اور جن کا کوئی تدارک نہ کیے جانے کی صورت میں قومی معیشت پر طویل المدتی بنیادوں پر انتہائی منفی اثر پڑے گا۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک