کرد جنگجوؤں نے تیرہ ترک یرغمالیوں کو قتل کردیا
15 فروری 2021ترک حکومت نے کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کے اراکین پر اس ہفتے شمالی عراق میں تیرہ ترک باشندوں کو اغوا کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ یہ افراد اس علاقے میں پی کے کے کے خلاف تر کی فوج کی کارروائی کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ترکی کے وزیر دفاع خلوصی آکار نے بتایا کہ ترک فوجیوں نے بدھ کے روز شمالی عراق کے گارا علاقے میں ایک غار پر حملہ کیا جب وہ اس غار کے اندر داخل ہوئے تو وہاں تیرہ لاشیں ملیں۔ آکار نے مزید بتایا کہ ان میں سے بارہ یرغمالوں کے سر میں گولی ماری گئی تھی جب کہ ایک شخص کے کندھے میں گولی لگی تھی۔
امریکا نے اتوار کے روز ان ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ”وہ عراق کے کردستان علاقے میں ترک شہریوں کی ہلاکت کی مذمت کرتا ہے۔"
ہلاک شدگان میں فوجی اور پولیس افسران شامل
ان لاشوں کو ترکی کے ملطیہ صوبے میں منتقل کردیا گیا ہے۔ ملطیہ کے گورنر آیدین باروش نے بتایا کہ سن 2015 اور سن 2016 کے درمیان جن افراد کو اغوا کیا گیا تھا ان میں چھ فوجی اور دو پولیس افسران شامل تھے۔
کردستان ورکرز پارٹی نے ترکی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے یرغمالوں کو قتل نہیں کیا بلکہ یہ لوگ ترک فضائیہ کے حملوں میں مارے گئے۔
وزیر دفاع خلوصی آکار نے اس پیش رفت کے حوالے سے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ متاثرین میں سے بارہ کو سر میں گولی ماری گئی تھی جب کہ ایک شخص کو کندھے میں گولی ماری گئی۔
مزید پڑھیے: کرد کون ہیں؟ ترکی نے حملہ کیوں کیا؟
ترکی اور پی کے کے کے درمیان سن 1984سے تصادم جاری ہے۔ ترک فوج گزشتہ دو برسوں سے شمالی عراق میں اس گروپ کے خلاف فوجی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ آکار نے بتایا کہ بدھ کے روز فوجی کارروائی کے دوران پی کے کے 48 افراد مارے گئے جب کہ ترکی کے تین فوجیوں کو بھی اپنی جان گنوانی پڑی۔
پی کے کے کے خلاف ترکی اور عراق کی مشترکہ کارروائی
ترکی، امریکا اور یورپی یونین نے پی کے کے کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ سن 1980 کی دہائی میں ترکی اور پی کے کے کے درمیان تصادم کی وجہ سے چالیس ہزار سے زائد افراد ہلا ک ہوئے تھے۔
ماضی میں ترکی اور عراق کی حکومتوں نے پی کے کے جیسے جنگجو گروہوں کے خلاف کارروائی میں تعاون کرنے سے اتفاق کیا تھا۔ دسمبر میں انقرہ میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ملاقات کے دوران عراقی وزیر اعظم مصطفی القدیمی نے کہا تھا کہ ان کا ملک ”ایسی کسی تنظیم یا ڈھانچے کو برداشت نہیں کرے گا جس سے ترکی کی سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہو۔"
مزید پڑھیے: یورپی یونین ’کامن سینس‘ کا استعمال کرے: ترکی
اس کے جواب میں ایردوآن نے کہا تھا، ”علیحدگی پسند دہشت گردوں کے لیے مستقبل میں ترکی، عراق یا شام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔"
کرد حامی جماعت پر دباؤ
ترکی کے شہریوں کے قتل کے اس واقعے کے بعد انقرہ ترکی کی کرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی(ایچ ڈی پی) پر اپنا دباؤ بڑھا سکتا ہے۔
صدر ایردوآن نے اس پارٹی پر پی کے کے کے ساتھ تعلقات رکھنے کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔ ایچ ڈی پی نے اتوار کے روز کہا کہ اسے قتل کے ان واقعات پر 'انتہائی افسوس‘ ہے اور وہ پی کے کے سے قیدیوں کو رہا کرنے کی اپیل کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: سعودی سپر مارکیٹیں ترک سامان کے بائیکاٹ میں شامل
ایچ ڈی پی، پی کے کے کے ساتھ کسی قسم کے تعلق سے انکار کرتی ہے لیکن ایردوآن کے حلیف قوم پرست رہنما دولت بہجلی نے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے تحت اس پارٹی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایچ ڈی پی کے ہزاروں اراکین کو ترکی کے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت حراست میں لیا یا گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ج ا / ع آ (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)