1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرسمس مارکیٹ پر حملہ: ایک دن، جو جرمنی کو بدل دے گا، تبصرہ

21 دسمبر 2016

جرمنی میں دہشت گردی کا خدشہ تو کافی عرصے سے ظاہر کیا جا رہا تھا تاہم برلن کی کرسمس مارکیٹ پر کیا جانے والا دہشت گردانہ حملہ جرمنی کو بدل کے رکھ دے گا۔ ڈی ڈبلیو کے چیف ایڈیٹر الیگذانڈر کُوڈاشیف کا تحریر کردہ تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/2Uem4
Deutschland Deutsche und europäische Flagge auf Halbmast in Berlin
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen

برلن میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے نے جرمنی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لوگ سہم گئے ہیں۔ بارہ افراد جان سے گئے، پچاس زخمی، جن میں سے کئی شدید زخمی ہیں۔ اس دہشت گردی کا ہدف پورا ملک تھا، وہ آزاد معاشرہ تھا، جس میں جرمن رہتے ہیں۔ اور اس کا ہدف ایک خاص طور پر پُر امن علامت تھی: کرسمس مارکیٹ، جہاں کرسمس سے پہلے کے دنوں میں لاکھوں لوگ جاتے ہیں، صرف جرمنی ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ، جو موسمِ سرما میں چند ایک گھنٹے کرسمس کی خوشی میں بے فکری کے ساتھ گھومتے پھرتے گزارتے ہیں اور اپنے روزمرہ معمولات اور ذہنی دباؤ کو بھول جانا چاہتے ہیں۔

دہشت گردی کا ہدف ہم سب

دہشت گردی کے اِس خونریز واقعے کا ہدف ہم سب ہیں، جو ایک آزادانہ اور بے فکری سے عبارت زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ یہ آزادی کے لیے ہماری خواہش کے خلاف کی جانے والی ایک وحشیانہ کارروائی ہے۔ اور اسی لیے برلن میں ہونے والی دہشت گردی پورے جرمنی کو بدل رہی ہے۔ ایک عرصے تک ہم کہتے رہے کہ ہمیں بین الاقوامی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، اب ہم انگریزوں، فرانسیسیوں، ہسپانویوں، اسرائیلیوں، امریکیوں اور دیگر ہی کی طرح متاثرین میں شامل ہو گئے ہیں۔

ایسے میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کارروائی نفسیاتی خلل کے شکار کسی جنونی کی ہو، ہلاکت خیز عزائم رکھنے والے کسی تنہا شخص کی ہو یا بنیاد پرستانہ پس منظر کے حامل کسی پورے گروپ کی ہو، اصل بات یہ ہے کہ اُس نے ایک آزاد معاشرے پر ضرب لگائی ہے۔ اُس نے کرسمس مارکیٹ کی صورت میں ایک ایسی مسیحی علامت کو نشانہ بنایا ہے، جسے جرمن اور یورپی روایت اور شناخت کا مظہر تصور کیا جاتا ہے۔

Alexander Kudascheff
ڈی ڈبلیو کے چیف ایڈیٹر الیگذانڈر کُوڈاشیف تصویر: DW

چانسلر نے ٹھیک کہا کہ جرمنوں کے لیے یہ ایک کڑی آزمائش کا دن ہے۔ اگرچہ ماضی میں جرمنی میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کافی دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ بہت سے حملوں کو ناکام بھی بنایا جا چکا ہے تاہم برلن میں ہونے والا یہ واقعہ ایک انتباہ ہے۔ یہ جرمن معاشرے کی ذہنیت بدل کے رکھ دے گا۔ روزمرہ معمول کی اب تک کی بے فکری قدرے کم ہو جائے گی۔ ہم کہتے تو ہیں کہ ہم کسی کو اپنا آزادانہ طرزِ زندگی چھیننے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن اب اس آزادی کی جگہ بے یقینی کا ایک گہرا احساس لے لے گا۔ جرمنی خود کو قدرے غیر محفوظ محسوس کرے گا۔ اور یہ اب تک کے مقابلے میں زیادہ غیر محفوظ ہو گا۔

کیا سیاسی نظام تہ و بالا ہو کر رہ جائے گا؟

اگر برلن میں حملہ کرنے والا کوئی مہاجر ہوا تو پھر اس حملے کے نتیجے میں جرمنی میں ممکنہ طور پر ایک سیاسی زلزلہ بھی آ سکتا ہے۔ تب وہ ایک ایسا شخص ہو گا، جو جرمنی میں پناہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ایک ایسا شخص، جسے اس ملک نے واپس نہیں بھیج دیا تھا۔ اگر درحقیقت اُن مہاجرین میں سے کوئی ہوا، جن کے لیے جرمنوں نے گزشتہ سال فراخ دلی کے ساتھ اپنی سرحدیں کھول دی تھیں تو پھر خاتون چانسلر کی مہاجرین سے متعلق پالیسی شدید طوفانوں کی زَد میں آ جائے گی۔ پھر مصیبت کے مارے انسانوں کے لیے سماجی ہمدردی کے اب تک کے رویے پر دباؤ بڑھ جائے گا۔ پھر جرمنی میں بھی دائیں بازو کی اور خود غرض قوم پرستی کی لہر کو شاید ہی کوئی روک سکے۔ پھر کھُلا معاشرہ خود کو بند کر لے گا۔ پھر داخلی سیاسی فضاجمود کا شکار ہو جائے گی۔ پھر ملک کو اندر سے خطرات کا سامنا ہو گا۔

بلاشبہ خصوصاً اس طرح کے واقعے کے روز انسان کو سکون اور بصیرت سے کام لینا چاہیے لیکن محتاط طرزِ عمل اختیار کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اُنیس دسمبر کی شام ایک ایسی شام تھی، جو جرمنی کو بدل کے رکھ دے گی۔ کس حد تک؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔