کم عمری کی شادیاں: جرمن حکام کے لیے ایک بڑا مسئلہ
24 ستمبر 2019جرمنی میں چائلڈ میرج کے انسداد کے لیے بنایا گیا قانون بائیس جولائی سن دو ہزار سترہ سے نافذالعمل ہے۔ اس وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ اس قانون سازی کے بعد کم عمر نوجوانوں کی شادیوں کا سلسلہ رک جائے گا۔ اس قانون کے تحت شادی کے لیے کم از کم عمر اٹھارہ برس کر دی گئی تھی۔ اس قانون کے تحت ججوں کو یہ اختیار بھی دیا گیا تھا کہ وہ کم عمری کی شادیوں کو منسوخ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس قانون کے نافذالعمل ہونے کے بعد ایک ایسے شخص کی شادی منسوخ بھی کر دی گئی تھی، جس نے جرمنی سے باہر جا کر شادی کی تھی لیکن شادی کے وقت اس کی عمر سولہ سے سترہ برس کے درمیان تھی۔
تاہم جرمنی میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم 'ٹیرے دیس فیمس‘ لیکن اب اس قانون کی افادیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس تنظیم کے مطابق جب سے یہ قانون بنا ہے، اس کے بعد سے ملک بھر میں آٹھ سو تیرہ کم عمر نوجوانوں کی شادیاں کی گئی ہیں جبکہ ان شادیوں میں سے صرف دس فیصد کو ہی قانونی سطح پر منسوخ کیا گیا ہے۔
اس تنظیم سے وابستہ مونیکا میشیل کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جرمنی میں کم عمری کی شادیوں سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنا ایک انتہائی مشکل امر ہے۔ ان کے مطابق جرمنی کی مختلف ریاستوں میں کوئی ایک مشترکہ نظام رائج نہیں ہے۔ اس حوالے سے ایک ہی ریاست میں مختلف ادارے کام کر رہے ہیں اور ان کا آپس میں ربط بھی مضبوط نہیں ہے۔
مونیکا میشیل کا حکومتی منصوبہ بندی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہنا تھا کہ زیادہ تر شہروں میں ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس حوالے سے ذمہ دار ادارہ کونسا ہے؟ ان کا کہنا تھا، ''یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے درست اعداد و شمار جمع نہیں کیے جا سکتے۔ کم عمری کی شادیوں کی اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ ہر ویک اینڈ پر جرمنی میں کم عمر نوجوانوں کی شادیاں ہوتی ہیں۔‘‘
دوسری جانب مجموعی طور پر دنیا بھر میں کم عمری کی شادیوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ جمعے کے روز اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف نے اس حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ کم عمری کی شادیاں بھارت میں ہو رہی ہیں۔ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر بنگلہ دیش جبکہ تیسرے نمبر پر نائجیریا ہے۔ پاکستان اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔
ا ا / ع ح