کورونا وائرس: امریکا میں ویکسین لگانے کا کام شروع
14 دسمبر 2020جرمن کمپنی بایو این ٹیک۔ فائزر کی تیار کردہ ویکسین کی پہلی کھیپ مشیگن میں ایک فیکٹری سے اتوار کے روز روانہ کی گئی اور اس کے ساتھ ہی پورے امریکا میں ویکسین کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ کورونا وائرس سے دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ملک میں کووڈ ویکسین فراہم کرنے کی یہ پہلی سب سے بڑی مہم ہے۔
مشیگن کے کالامازو شہر میں واقع فائزر کی فیکٹری کے کارکنوں نے خشک برف کے ڈبوں میں رکھے گئے ویکسین کی پہلی کھیپ روانہ کی۔ مخصوص ٹرکوں پر ویکسین کو قریبی ہوائی اڈے لے جانے کے دوران مسلح سکیورٹی اہلکار ان کی حفاظت کر رہے تھے۔
پیر کے روز اس ویکسین کی پہلی خوراک 145ڈسٹریبیوشن سینٹروں پر وصول کی جائے گی، جب کہ منگل کے روز مزید425 سینٹروں اور بدھ کر روز دیگر 66 سینٹروں تک یہ ویکسین پہنچیں گی۔
قبل ازیں کینیڈا اور برطانیہ کے بعد جمعے کے روز امریکا میں ادویات کے ریگولیٹری ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے بھی ویکسین کی تقسیم کو منظوری دے دی۔
ٹرانسپورٹیشن کا کام مشکل
اس ویکسین کو منفی 70 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت کے آس پاس رکھنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا کافی مشکل کام ہے اور اس کے لیے خصوصی ڈبوں اور مخصوص ڈیزائن والے ریفریجریٹرس کا استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔
جب یہ ویکسین ہیلتھ کیئر سینٹر پر پہنچے گی تو ریاستی اور مقامی صحت حکام اسے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی) اور ایف ڈی اے کی ہدایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے لوگوں کو لگائیں گے۔
ویکسین فی الحال ہر ریاست میں بالغوں کی آبادی کی بنیاد پر تقسیم کی جا رہی ہے۔
پہلی ویکسین کسے لگائی جائے گی؟
امریکا میں سب سے پہلے یہ ویکسین صحت کی دیکھ بھال میں مصروف سب سے پیش پیش رہنے والے کارکنوں کو اور نرسنگ ہوم میں بزرگ افراد کو لگائی جائے گی۔
بایو این ٹیک۔فائزر کی اس ویکسین کا دو مرتبہ لگانا ضروری ہوگا اور دونوں کے درمیان تقریباً تین ہفتے کا وقفہ درکار ہوگا۔
فائزر کا کہنا ہے کہ اس ماہ کے اواخر تک امریکا کو 25 ملین ویکسین فراہم کی جاسکتی ہیں جب کہ امریکا نے مجموعی طور پر 100ملین ویکسین کی پیشگی آرڈردے رکھا ہے۔
'ہرڈ امیونیٹی‘ ابھی دور ہے
امریکا میں ویکسینیشن مہم کے چیف سائنٹفک ایڈوائزر ڈاکٹر مونسیف سلاوئی نے بتایا کہ اگلے سال مارچ کے اواخر تک 100ملین امریکی شہریوں یا تقریباً 30 فیصد آبادی کو ٹیکہ لگانے کا پروگرام ہے۔
انہوں نے تاہم کہا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ بیشتر امریکی اس ویکسین کو قبول کریں گے یا نہیں۔ ڈاکٹر سلاوئی نے کہا ”لوگوں میں جو جھجھک ہم دیکھ رہے ہیں اس سے ہمیں کافی تشویش ہے۔"
انہوں نے کہا امریکا کو 'ہرڈ امیونیٹی‘ تک پہنچنے کے لیے، تاکہ کورونا وائرس پھیلنے سے رک سکے،ملک میں 75 سے 80 فیصد لوگوں کو ویکسین لگانے کی ضرورت ہوگی۔
سب سے متاثرہ ملک
امریکا میں ویکسین لگانے کا سلسلہ ایسے وقت شروع ہورہا ہے جب کورونا وائرس کے نئے کیسز اور اموات کی تعداد ہر روز ایک نیا ریکارڈ قائم کررہی ہے۔
اس عالمگیر وبا کے آغاز کے بعد سے امریکا میں کورونا وائرس کے 16ملین سے زیادہ کیسز درج کیے جاچکے ہیں جب کہ صرف 8دسمبر سے اب تک ایک ملین سے زیادہ نئے کیسز درج ہوئے ہیں۔ اس وبا سے اب تک دو لاکھ 98 ہزار لوگوں کی موت بھی ہوچکی ہے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)