کورونا وائرس: برطانیہ میں 50 ہزار سے زیادہ اموت
10 جون 2020- عالمی سطح پر کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد چار لاکھ پانچ ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے جبکہ 72 لاکھ سے زیادہ افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔
- جرمنی کے صوبے تھورنگیانے وفاقی حکومت کی طرف سے ہدایات کے باوجود 13 جون سے سوشل ڈسٹینسنگ کے تعلق سے تمام پابندیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
- دنیا میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکا ہے جہاں اس وبا سے اب تک ایک لاکھ 10 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 19 لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
- متاثرین کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں برازیل دوسرے نمبر پر ہے جبکہ اموات کے حساب سے برطانیہ دوسرے نمبر پر جہاں 50 ہزار 107 افراد اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔
- روس نے سفری پابندیوں سمیت لاک ڈاؤن کے تحت عائد بندشوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جرمنی کے معروف ادارے رابرٹ کوخ انسٹیوٹ کے مطابق بدھ کے روز کورونا وائرس سے متاثرہ 318 مزید کیسز سامنے آئے ہیں اور اس طرح ملک میں کووڈ 19 سے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ 84 ہزار 861 ہوگئی ہے۔ منگل کے روز صرف 252 کیسز سامنے آئے تھے اس طرح ایک روز بعد یہ ایک بڑا اضافہ کہا جا رہا ہے۔ اس دوران 18 مزید افراد کی موت ہوئی ہے اس طرح اموات کی تعداد آٹھ ہزار 729 ہوگئی ہے۔
ادھر امریکا کی متعدد ریاستوں نے بھی ہفتے بھر میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کی بات تسلیم کی ہے۔ تقریباً اکیس ریاستوں میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں قدر ے اضافہ دیکھاگیا ہے جہاں اب تک اس وبا سے ایک لاکھ 12 ہزارسے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 19 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
میکسکیو میں منگل کے روز چار ہزار 199 مزید نئے کیسز کے سامنے آنے اور 596 افراد کی ہلاکت کی کی تصدیق کی گئی ہے۔ ملک میں اب تک ایک لاکھ 24 ہزار افراد اس وبا سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ 14649 افراد اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔
متاثرین میں ایک بڑی تعداد محکمہ صحت میں کام کرنے والے افراد کی بتائی جا رہی ہے۔ حکام یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جس پیمانے پر لوگوں کی جانچ ہونی چاہیے وہ نہیں ہو پارہی ہے ورنہ متاثرین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔
اس دوران کیمبرج اور گرین وچ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر لوگ چہرے پر ماسک کا استعمال کرنے لگیں تو کورونا وائرس کے پھیلاو پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس کے مطابق اگر چہرے پر ماسک کے ساتھ ہی سوشل ڈسٹینسنگ کو اپنایا جائے تو اس وبا کو پھیلنے سے روکنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔
اس دوران چین نے امریکا کے ہارورڈ یونیورسٹی کے شعبہ طب کی اس ریسرچ کو احمقانہ بتا کر مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس گزشتہ برس اگست کے مہینے میں پھیلنا شروع ہوگیا تھا۔ عالمی ادارہ صحت کو چین نے اس وائرس کے بارے میں دسمبر کے اواخر میں مطلع کیا تھا۔ تاہم ہارورڈ کی تحقیق کے مطابق چین میں اس بیماری نے اگست میں اپنے پیر پھیلا لیے تھے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی دلیل ہے کہ سیٹلائٹ سے ملنے والی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ اگست کے مہینے میں ہی چین کے بہت سے اسپتالوں کے باہر بھیڑ جمع ہونے لگی تھی۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس دوران بہت سے چینی شہریوں نے انٹرنیٹ پر علاج کے سلسلے میں جو سرچ کیا اس سے بھی اسی بات کا اشارہ ملتا ہے کہ چین میں اس طرح کی بیماری اگست میں ہی پھیل چکی تھی۔ چین نے اس تحقیق کو مسترد کر دیا ہے اور بعض دیگر محققین نے بھی اس ریسرچ کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے ہیں۔
ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)