کورونا وائرس سے عالمی معیشت لڑکھڑا سکتی ہے
31 جنوری 2020عالمی مالیاتی منڈیوں کو چین میں جنم لینے والے کورونا وائرس کی نئی قسم کے پھیلاؤ سے شدید خطرات لاحق ہوتے دکھائی دے رے ہیں۔ ایسا امکان ہے کہ سارس وائرس کے پھیلاؤ کے وقت عالمی اقتصادیات کو جن خطرات کا سامنا ہوا تھا، اس نئے وائرس سے وہ خطرات کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔
دنیا بھر کی مالیاتی منڈیوں میں مندی کا رجحان ایسے وقت میں غالب ہے جب چین میں نمونیا بیماری کا سبب بننے والے وائرس سے ہلاکتیں دو سو دس سے تجاوز کر چکی ہیں۔ کم از کم بیس ممالک میں اس نئے وائرس کے مریضوں کی تشخیص ہو چکی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی ويکسين کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
عالمی اقتصادی صورت حال پر نگاہ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی سینیئر اہلکار اگاتھا ڈیماریس کا کہنا ہے کہ مالیاتی منڈیوں کو سردست جس خطرے کا سامنا ہے، وہ چند روزہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ صورت حال اُس وقت شدید ہو جائے جب سرمایہ کاروں کو مجموعی حالات کے بے قابو ہونے کا اندیشہ لاحق ہو گا۔ اگاتھا ڈیماریس اکانومسٹ انٹیلجینس ادارے میں مستقبل کی معاشی صورت حال پر نگاہ رکھنے والے شعبے کی ڈائریکٹر ہیں۔
چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت رکھتا ہے اور ایک طرح سے اپنی بڑی آبادی اور پیداواری صلاحیت کے تناظر میں اسے دنیا کی 'فیکٹری‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی تجارت میں چینی مصنوعات کا ایک اہم کردار ہے اور عالمی سپلائی میں بھی یہی مصنوعات انتہائی اہم خیال کی جاتی ہیں۔ عالمی اقتصادی ماہرین چین میں وائرس کے وسیع پھیلاؤ سے بین الاقوامی معیشت شدید طور پر متاثر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ماہرین ابھی بھی اس صورت کا صرف اندازہ لگانے میں مصروف ہیں کہ مجموعی معاشی نقصانات کتنے گہرے ہو سکتے ہیں۔
وائرس کے مسلسل پھیلنے سے چین کی مجموعی شرح پیداوار کے بھی متاثر ہونے کے قوی امکانات ظاہر ہونا شروع گئے ہے۔ چینی اکیڈمی برائے سوشل سائنسز سے وابستہ ماہر اقتصادیات ژانگ مِنگ کا کہنا ہے کہ رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں یہ پیداوار ایک سے پانج فیصد تک کم یا اس بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ چینی شہروں میں پچیس جنوری سے شروع ہونے والے نئے قمری سال کے آغاز پر طلب اور رسد میں واضح فرق پیدا ہو چکا ہے۔
عالمی سپلائی کے متاثر ہونے کا بھی امکان جنم لے چکا ہے کیونکہ چینی قمری سال کے موقع پر بند ہونے والی فیکٹریوں اور کارخانوں کی بندش طویل ہو سکتی ہے کیونکہ ابھی تک چین ہی کے اندر کورونا وائرس کی افزائش کو محدود کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ مختلف صوبوں کے درمیان ٹرانسپورٹیشن بھی کم کی جا چکی ہے اور قمری سال کی تعطیلات پر گئے ہوئے ورکرز کو واپسی میں انتظامی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
کئی بین الاقوامی اداروں کو اپنی مصنوعات کی تیاریوں میں مشکلات حائل ہو گئی ہیں۔ ایپل نے اگلی سہ ماہی میں اپنے پیداواری صلاحیت کے تسلسل میں غیریقینی کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح امریکی کار ساز ادارے ٹیسلا کو بھی پروڈکشن میں سست روی کا سامنا ہے۔ ٹیسلا نے چینی شہر شنگھائی میں کار سازی کا کارخانہ حال ہی میں کھولا ہے۔ اِس فیکٹری کو مشلات کا سامنا یقینی ہے کیونکہ کار سازی کے بعض پرزوں کی پروڈکشن ووہان میں قائم دو فیکٹریوں میں کی جاتی ہے۔
ووہان ہی میں کورونا وائرس کی نئی قسم کا جنم ہوا ہے۔ اور اس وقت یہ شہر پوری طرح حکومتی نگرنانی میں ہے اور بقیہ چین سے کٹ کر رہ گیا ہے۔