1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کورونا وائرس: ہائی سکیورٹی لیبارٹریاں کیسے کام کرتی ہیں؟

22 اپریل 2020

خطرے کے لحاظ سے دنیا میں پائے جانے والے مختلف اقسام کے وائرس کے چار درجے ہیں۔ جن ہائی سکیورٹی لیبارٹریوں میں ان پر تحقیق کی جاتی ہے، وہاں کی ہوا کو بھی خارج کرنے سے پہلے کئی اقسام کے فلٹروں سے گزارہ جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3bFNS
Eröffnung Laborneubau Robert Koch-Institut 03.02.2015
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini

ایڈز، میرس، سارس، برڈ فلو، سوائن فلو، لوجو، ماربرگ، لسا، نیپاہ، کانگو بخار یا ایبولا وائرس، حالیہ عشروں کے دوران تقریبا ہر سال کوئی نہ کوئی نیا وائرس دریافت ہوا ہے، جو انسانوں کے لیے سنگین بیماریوں کی وجہ بن سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ابھی تک  جانوروں سےکئی نامعلوم وائرس انسانوں تک منتقل ہو رہے ہیں اور یہ عالمی نظام صحت کے لیے خطرہ ہیں۔

 ایسے کسی وائرس کی قابل اعتبار شناخت، تشخیص کے طریقہ کار، تھراپی اور ویکسین کی تیاری کے لیے خاص لیبارٹریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری جانب کسی بائیو دہشت گردانہ حملے کے شُبے میں بھی اعلی حفاظتی اقدامات کے تحت محفوظ تشخیص ضروری ہے۔

وائرس کے چار رسک گروپ

ہر وائرس کو خطرے کے لحاظ سے چار درجوں یا گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر گروپ پر تحقیق کے لیے الگ الگ حفاظتی اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے خطرناک وائرس گروپ نمبر چار  میں شامل کیے جاتے ہیں۔ یہ وہ وائرس ہیں، جو انسان کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کے سامنے ہر قسم کا علاج اور دوائی بے بس ہو جاتے ہیں۔ ایسے وائرس کی تعداد تقریبا دو درجن ہے اور ان میں لوجو، ہینڈرا اور نیپاہ وائرس بھی شامل ہیں۔

S4-Labor EINSCHRÄNKUNG
تصویر: Hans-Günter Bredow/RKI

حیران کن طور پر سائنسدانوں نے خطرے کے لحاظ سے کورونا خاندان کے تمام وائرس کو گروپ تھری میں رکھا ہے۔ 

دنیا بھر میں کم لیبارٹریاں

پیچیدہ حفاظتی اقدامات کی وجہ سے دنیا بھر میں ایسی ہائی سکیورٹی لیبارٹریوں کی تعداد انتہائی کم ہے، جہاں درجہ چہارم کے وائرسوں پر تحقیق کی جاتی ہے۔ ایسی لیبارٹریوں کی اصل تعداد جاننا مشکل ہے لیکن موجودہ اعداد و شمار کے مطابق امریکا سرفہرست ہے، جہاں درجہ چہارم کی لیبارٹریوں کی تعداد گیارہ ہے جبکہ جرمنی میں ایسی لیبارٹریوں کی تعداد چار ہے۔ بھارت اور سوئٹزر لینڈ میں ایسی تجربہ گاہوں کی تعداد تین تین جبکہ روس اور آسٹریلیا میں دو دو ہیں۔ ایسی انتہائی جدید اور اعلی حفاظتی ایک لیبارٹری فرانس، گیبون، کینیڈا ، جاپان، سویڈن، جنوبی افریقہ، جمہوریہ چیک، تائیوان، ہنگری، برطانیہ، بیلاروس اور چین میں بھی واقع ہے۔

درجہ چہارم کی لیبارٹریاں کس قدر محفوظ ہیں؟

ایس 4 لیبارٹریوں میں انتہائی مہلک بیماریاں پیدا کرنے والے وائرس پر ایسے تحقیق کی جاتی ہے کہ وہاں کام کرنے والا عملہ اور عوام محفوظ رہیں۔ اس لیے ہائی سکیورٹی لیبارٹریوں دیگر عمارتوں سے الگ تھلگ بنائی جاتی ہیں اور ان کے اندر بھی کمروں کی تقسیم در تقسیم ہوتی ہے۔ کسی بھی انسٹی ٹیوٹ میں انہیں بالکل ایک الگ جگہ پر بنایا جاتا ہے اور مجاز افراد کے علاوہ کوئی اس مخصوص ایریا کے قریب بھی نہیں جا سکتا۔ اس کے علاوہ ان تک رسائی کے سخت کنٹرول، ویڈیو نگرانی اور دیگر حفاظتی اقدامات بھی موجود ہوتے ہیں۔

ایس 4 لیبارٹریوں میں پانی، بجلی اور ہوا کی فراہمی کا نظام بھی بالکل الگ تھلگ ہوتا ہے۔ بغیر کسی خلل کے نظام کو چلانے کے لیے ہنگامی بجلی جنریٹر اور ریزرو بیٹریاں موجود ہوتی ہیں۔ ان لیبارٹریوں کی ہوا کو خارج کرنے سے پہلے کئی اقسام کے فلٹروں (ایچ ای پی اے فلٹر سسٹم) سے گزارہ جاتا ہے۔ ایسی لیبارٹریوں کے اندر آنے اور باہر جانے والے تمام پائپ مہر بند ہوتے ہیں اور کسی قسم کا بیک فلو ممکن نہیں ہوتا۔ ان لیبارٹریوں کی دیواریں، چھتیں اور فرش بھی ایسے میٹریل سے تیار کیے جاتے ہیں، جو انتہائی محفوظ ہوتا ہے اور ان پر جراثیم کُش کوٹنگ کی جاتی ہے۔

Infografik Arbeiten im S4-Hochsicherheitslabor

ان لیبارٹریوں  کے اندر ہوا کی دباؤ بھی کم رکھا جاتا ہےتاکہ کوئی جراثیم کہیں جا نہ سکے یا وہاں سے باہر منتقل نہ ہو سکے۔

درجہ چہارم کی ہائی سکورٹی لیبارٹریوں میں داخل ہونے کے لیے ایک محقق کو کئی سکیورٹی دروازوں گزرنا پڑتا ہے۔ دروازے اندر اور باہر سے بند ہوتے ہیں اور ہمیشہ دو دروازوں کے درمیان خالی جگہ رکھی جاتی ہے۔ دروازے انٹرلاک ہوتے ہیں، پچھلا دروازہ بند ہوتا ہے تو اگلا دروازہ کھلتا ہے۔ ان میں ایسا نظام نصب ہوتا ہے کہ دروازہ کھولتے یا بند کرتے وقت ہوا صرف لیبارٹری کے اندر کی طرف جائے یا بہے۔

جرمنی کے تحقیقی مرکز رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اگر ان لیبارٹریوں پر کوئی جہاز یا بم بھی گرا دیا جائے تو ایسا خطرہ پیدا نہیں ہوتا کہ یہ وائرس فعال ہو سکیں بلکہ اندر ایک ایسا نظام ہوتا ہے کہ وائرس شدید حرارت سے خود بخود تباہ ہو جائیں گے۔

ایسی لیبارٹریوں میں کون کام کرتا ہے؟

ایسی تجربہ گاہوں میں کام کرنے والے محققین کی تعداد انتہائی محدود رکھی جاتی ہے۔ مخصوص قابلیت رکھنے والے عملے کی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ انہیں جدید حفاظتی سوٹ پہننا پڑتے ہیں، جن کے اندر ہی آکسیجن فراہم کی جاتی ہے۔ سائنسدانوں کو ایک ساتھ دو یا تین قسم کے دستانے پہنائے جاتے ہیں اور بیرونی دستانے کہنیوں  تک ہوتے ہیں۔

ہر سائنسدان کے سوٹ کا وزن کم از کم بھی دس کلوگرام ہوتا ہے اور اسی وجہ سے ایک محقق کو روزانہ زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے کام کرنا ہوتا ہے۔ اجازت نامے کے بعد ایسی لیبارٹریوں میں صرف وہ مخصوص وائرس ہی محفوظ کیے جاتے ہیں، جن کی تحقیق کے لیے ضرورت ہوتی ہے اور ان کی مقدار بھی کم سے کم رکھی جاتی ہے۔

الیکسانڈر فروئنڈ / ا ا / ع ب