کولون: اضافی سکیورٹی کے ساتھ کارنیوال کی تیاریاں
1 فروری 2016جرمن وفاقی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر کولون میں سال نو کے موقع پر ایک ہزار کے قریب خواتین نے جنسی حملوں کی شکایات درج کرائی تھیں۔ ان حملوں میں ملوث افراد کا تعلق عرب اور شمالی افریقی ممالک سے تھا اور وہ مبینہ طور پر مہاجرین تھے۔
کولون اور اس کے قریب واقع شہروں میں رواں ہفتے کارنیوال فیسٹیول کا آغاز ہو رہا ہے جس میں لاکھوں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی پولیس کو عوام میں سکیورٹی صورت حال کے حوالے سے اعتماد بحال کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔
بدھ کے روز شروع ہونے والے اس فیسٹیول کے دوران شاہراہوں پر پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایک ہفتہ جاری رہنے والی تقریبات کے دوران جرمن رنگ برنگ ملبوسات زیب تن کر کے رقص کرتے، موسیقی سنتے اور شراب نوشی کرتے ہوئے جشن مناتے ہیں۔ آئندہ پیر کے روز کولون شہر میں کارنیوال پریڈ کا اہتمام بھی ہو گا۔ ان تقریبات کا اختتام بدھ دس فروری کے روز ہو گا۔
جرمن حکام کا کہنا ہے کہ کارنیوال کی تقریبات روایتی جوش و خروش سے منائی جائیں گی۔ رواں برس ان تقریبات کے لیے پچیس سو سے زائد سکیورٹی اہلکار متعین کیے گئے ہیں جو کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔ رواں برس غیر معمولی سکیورٹی اقدامات کے لیے تین لاکھ 60 ہزار یورو کا بجٹ مقرر کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں پولیس نے شہر بھر کی نگرانی کے لیے کلوز سرکٹ کیمرے بھی لگا دیے ہیں جب کہ پولیس نے پہلے سے معلوم چوروں، جیب کتروں اور دیگر جرائم پیشہ افراد پر بھی ان تقریبات میں شرکت پر پابندی عائد کر دی ہے۔
تقریبات کے دوران خواتین کے لیے ’سکیورٹی پوائنٹ‘ بھی بنایا جا رہا ہے جہاں سماجی کارکنوں کے علاوہ ماہرین نفسیات بھی موجود ہوں گے۔ صوبے کی عدالتوں میں بھی اس موقع پر جرائم کی صورت میں مجرموں کے مقدمات جلد از جلد نمٹانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔
جرمنی میں نئے آنے والے زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق مسلمان ممالک سے ہے اسی وجہ سے کارنیوال کے تشہیری مواد کو عربی اور انگریزی میں بھی شائع کیا گیا ہے۔ ایسے ہی ایک اشتہار کے مندرجات کچھ یوں ہیں، ’’کارنیوال کے دوران کولون کے کئی مقامی افراد بیئر اور دیگر الکوحل والی مشروبات استعمال کرتے ہیں جو کہ یقیناﹰ لازمی نہیں ہے۔ آپ شراب پیے بغیر بھی موسیقی اور رقص سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔‘‘
مغربی جرمنی کے سابق دارالحکومت بون میں بھی کارنیوال کی تقریبات منائی جاتی ہیں۔ اس شہر کی انتظامیہ نے مرد تارکین وطن کو کارنیوال جشن کے موقع پر عورتوں سے سلوک کے بارے میں تربیت کے انتظامات کیے ہیں۔
بون شہر کی انتظامیہ کی طرف سے شائع کیے جانے والے ایک اشتہار میں لکھا گیا ہے، ’’کارنیوال کے دوران خواتین کو گالوں پر پیار کرنا بھی روایت کا حصہ ہے۔ لیکن جنسی تعلق استوار کرنے کی جبری کوشش سختی سے ممنوع ہے۔ خواتین کی رضامندی بہت ضروری ہے۔ نہیں کا مطلب نہیں ہے۔‘‘
اس موقع پر دہشت گردی کے کسی بھی ممکنہ واقعہ کے انسداد کے لیے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔ سخت گیر اسلامی عقائد رکھنے والے سلفی مسلمانوں کی تعداد جرمنی کے دیگر شہروں کی نسبت کولون اور اس کے گرد و نواح میں سب سے زیادہ ہے۔
کولون کے پولیس چیف نے اس ضمن میں عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ کارنیوال کے موقع پر جہادیوں جیسے کاسٹیوم زیب تن نہ کریں اور نہ ہی نقلی اسلحہ ہمراہ رکھیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے عوام سے کہا ہے کہ وہ بلا خوف و خطر کارنیوال تقریبات میں شرکت کریں۔ میرکل کا کہنا تھا، ’’ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ ہمیں زندگی کا مزا لینے سے روکے۔ ہمیں اپنی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی محبوب ہے اور ہم خاص طور پر زندگی سے لطف اندوز ہونے کی آزادی سے محبت کرتے ہیں۔‘‘