کوپن ہیگن: عالمی ماحولیاتی کانفرنس اختتام کے قریب
17 دسمبر 2009کانفرنس میں شریک ترقی پذیر ملکوں کا مطالبہ ہے کہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک عالمی ماحول کے تحفظ کے لئے زیادہ سے زیادہ کوششیں کریں، سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے لئے زیادہ بڑے اہداف مقرر کریں اور غریب ممالک کو مالی امداد دیں تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کے علاوہ سبزمکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے لئے ٹھوس منصوبے ترتیب دیں سکیں۔
سات دسمبر سے شروع ہونے والی اس کانفرنس میں دس دن کی کارروائی مکمل ہونے کے باوجود کسی متفقہ معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی پر کانفرنس میں شریک ممالک بھی شکوک وشبہات کا اظہار کررہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے کہا ہے کہ اس کانفرنس کے دوران کسی ڈیل پر پہنچنا ’بہت مشکل‘ ہے۔ آسٹریلوی وزیر اعظم کیون رڈ نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس کانفرنس کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
منگل کے روز سے کوپن ہیگن پہنچے برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے اس کانفرنس سے وابستہ امیدوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب تک موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ بننے والے مسائل کو حل نہیں کریں گے یہ مسائل بڑھتے چلے جائیں گے، ایک ایسی دنیا میں جس میں سیلاب ہیں جس میں خشک سالی ہے، جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنے والے مہاجرین اور تارکین وطن ہیں اور جہاں موسموں کی شدت میں ہوتا ہوا اضافہ ہے۔ براؤن کا خیال ہے کہ یہی وقت ہے کہ ہم کچھ کرلیں۔ اگر اس وقت ہم کسی معاہدے پر نہ پہنچ سکے تو لوگوں کا شبہ درست ہوگا کہ ہم اس سلسلے میں کسی معاہدے تک پہنچ بھی سکتے ہیں یا نہیں۔
تاہم امریکی صدر باراک اوباما کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق انہیں امید ہے کہ کانفرنس میں ان کی شرکت سے تحفظ ماحول کے نئے معاہدے تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ باراک اوباما کل جمعہ کی صبح کوپن ہیگن پہنچیں گے۔
کانفرنس کے فیصلہ کن مرحلے میں کانفرنس کی صدارت کی ذمہ داری اب ڈنمارک کے وزیراعظم لارس لوکے راسموسن کر رہے ہیں۔ ڈنمارک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ مجوزہ سمجھوتے کی مختلف پیچیدہ تجاویز کو سہل بنانے کی کوششوں میں مصروف اور معاونت کر رہا ہے۔ آج جمعرات کے دن کئی ملکوں کے سربراہوں کا شیڈول ہے، جن میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے علاوہ ایرانی صدراحمدی نژاد اور فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی شامل ہیں ہے۔
دوسری طرف ماحول دوست سماجی کارکنان کی جانب سے گزشتہ روز بھی کوپن ہیگن میں مظاہرے جاری رہے۔ اس دوران آج ڈینش پولیس نے مزید دو سو چالیس مظاہرین کو گرفتار کیا۔ اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس بھی استعمال کی۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ عالمی رہنما زمینی درجہء حرارت میں کمی کو ممکن بنانے کے لئے ٹھوس حکمت عملی بنائیں اور غریب ممالک کو اِن تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے لئے مالی منصوبے بھی تجویز کریں۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: عابد حسین