کيا ايک اور انسانی الميہ ہونے کو ہے؟
24 فروری 2016آسٹريا کے دارالحکومت ويانا ميں بروز بدھ جاری اجلاس کا خلاصہ پچيس فروری کو يورپی يونين کے وزرائے داخلہ اور وزرائے انصاف کے بيلجيم کے دارالحکومت برسلز ميں ہونے والے اجلاس ميں دستياب ہو گا۔ بات چيت ميں شرکت کے ليے البانيا، کروشيا، بوسنيا، بلغاريہ، کوسوو، مقدونيہ، مونٹی نيگرو، سربيا اور سلووينيا کے وزرائے داخلہ و خارجہ کو دعوت دی گئی ہے۔ ویانا میں جمع وزراء خطے ميں پناہ گزينوں کی آمد کو روکنے کے ليے حاليہ ايام ميں متعارف کرائی جانے والی سخت تر پاليسيوں اور ان پر يورپی يونين کی تنقيد کے حوالے سے بات چيت کر رہے ہيں۔ بارڈر مينجمنٹ، خطے کے ملکوں کے مابين معلومات کا تبادلہ اور انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف کارروائی جيسے معاملات بھی گفتگو کا حصہ بنيں گے۔
يہ مذاکرات ايک ايسے وقت ہو رہے ہيں، جب اس سال کے آغاز سے اب تک مزید ایک لاکھ دس ہزار پناہ گزين يورپی براعظم پہنچ چکے ہيں۔ بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے مطابق رواں سال کے دوران سياسی پناہ کے ليے يورپ پہنچنے والوں ميں اکتيس ہزار شامی شہری شامل ہيں۔ اس ادارے کے مطابق رواں سال يونان پہنچنے کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد 321 ہے۔ گزشتہ برس بھی ايک ملين سے زائد تارکين وطن يورپ پہنچے تھے۔
يہ امر اہم ہے کہ يونان نے ويانا ميں اس وزارتی اجلاس ميں شرکت کی دعوت نہ ملنے کے سبب باقاعدہ تحريری شکايت درج کرائی ہے۔ يہ پيش رفت مہاجرين کے بحران سے نمٹنے ميں يورپی يونين کے رکن ملکوں کے درميان اختلافات اور دراڑوں کی عکاس ہے۔
گزشتہ ہفتے آسٹريا نے متنازعہ قدم اٹھاتے ہوئے مہاجرين کی يوميہ تعداد مقرر کر دی تھی، جس کے نتيجے ميں بلقان رياستوں سے گزرنے والے روٹ پر واقع ملکوں نے بھی ايسے ہی اقدامات اٹھائے۔ يورپی کميشن نے بلقان رياستوں کی جانب سے متعارف کردہ حاليہ سخت تر اقدامات کو ’غير قانونی‘ اور ’يورپی يونين کی پاليسيوں کے بر خلاف‘ قرار ديا ہے۔ يورپی کمشنر برائے مہاجرت ديميتری ارواموپولس اور ہالينڈ کے وزير برائے مائیگريشن کلاس ڈکہوف نے بلقان رياستوں سے گزرنے والے روٹ پر ہونے والی حاليہ پيش رفت پر نہ صرف تشويش کا اظہار کيا بلکہ ان کا يہ بھی کہنا ہے کہ اس کے نتيجے ميں کوئی نيا انسانی الميہ نمودار ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين (UNHCR) کے سربراہ فيليپو گراندی نے بھی ايسے ہی خيالات کا اظہار کيا۔ ان کے بقول يہ پيش رفت باعث تشویش ہے کہ يورپی ممالک اپنی سرحديں بند کر رہے ہيں اور سختياں متعارف کرا رہے ہيں اور اس کے نتيجے ميں مزيد مسائل کھڑے ہو سکتے ہيں۔