1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کھیل سیاست سے زیادہ طاقتور

24 جولائی 2010

فٹ بال کے عالمی کپ کے دوران جرمن شائقین میں رنگ و نسل کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہ گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ سبھی جرمن ہیں، ہر شخص کے ہاتھوں میں جرمن پرچم دکھائی دے رہے تھے

https://p.dw.com/p/OSCH
جرمن سیاستدان فشر فٹ بال میدان میںتصویر: picture-alliance / ZB

کھیل میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ کھیل ملکوں اور عوام کو ایک دوسرے کے قریب بھی لاتا ہے اور بہت دور بھی لے جا سکتا ہے۔ دُنیا کے کئی ممالک کی قومی ٹیموں میں ایسے کھلاڑی بھی شامل ہوتے ہیں، جن کا بنیادی طور پر اُس ملک سے تعلق نہیں ہوتا۔ لیکن جب یہ ق‍ومی ٹیمیں کسی مقابلے میں حصہ لیتی ہیں تو نہ صرف اُن کے اپنے عوام اُس ٹیم کی بھرپور حمایت کرتے ہیں بلکہ وہ لوگ بھی اُس ٹیم کو سپورٹ کرتے ہیں، جن کا کوئی ہم وطن اُس ٹیم میں کھیل رہا ہو۔

جنوبی ایشیا میں تو ایسی مثالیں کم ہی ہیں تاہم یورپ ان سے بھرا پڑا ہے۔ اگر جرمنی کی ہی بات کی جائے تو اس مرتبہ عالمی فٹ بال چیمپئن شپ میں جرمن ٹیم میں تارکین وطن گھرانوں کا پس منظر رکھنے والے کئی کھلاڑی شامل تھے۔ ان کی ٹیم میں شمولیت نے جرمنی میں اتحاد کی ایک ایسی فضا قائم کی، جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

WM Bilder des Tages, Fußball, WM 2006, Deutschland - Schweden, Deutsche Fans, 24.06.2006
تارکین وطن گھرانوں کا پس منظر رکھنے والے کئی کھلاڑی کی شمولیت نے جرمنی میں اتحاد کی ایک ایسی فضا قائم کی، جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتیتصویر: AP

عالمی کپ میں شریک جرمن ٹیم میں گیارہ کھلاڑی ایسے تھے، جو تارکین وطن کا پس منظر رکھتے تھے۔ جہاں ترک نژاد محسوت اوزل کی وجہ سے جرمنی میں آباد تمام ترک بھی جرمن ٹیم کے لئے دعائیں کر رہے تھے، وہاں خدیرا کی وجہ سے تیونس والے اپنے اوپر فخر کر رہے تھے۔ پوڈولسکی اور کلوزے کا پس منظر پولینڈ کا ہے اور بوئیٹنگ کے والدین گھانا سے ہیں۔ اس موقع کا جرمن فٹ بال فیڈریشن نے بھی بڑے اچھے انداز میں فائدہ اٹھایا ۔ ڈی ایف بی کے ایک اشتہار میں ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کے والدین کو دکھاتے ہوئے یہ کہا جاتا تھا کہ ان میں ایک بات یکساں ہے اور وہ یہ کہ ان کے بچے جرمنی کے لئے کھیلتے ہیں۔

عالمی کپ کے دوران شائقین میں رنگ و نسل کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہ گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ سبھی جرمن ہیں، ہر شخص کے ہاتھوں میں جرمن پرچم دکھائی دے رہے تھے۔ وہ جرمنی کی جیت پر خوشیاں مناتے تھے اور شکست پر افسردہ ہو جاتے تھے۔ برلن کے علاقے نیوکلن کا شمار ایسے علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں تارکین وطن افراد ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف اس علاقے میں ایک سو ساٹھ مختلف ممالک کے باشندے رہتے ہیں۔ یہاں بھی عالمی کپ کے دوران جرمن ٹیم کی حمایت واضح طور پر محسوس کی گئی۔ نیوکلن میں آباد باصل اور اس کے بھائی یوسف کے گھر کے باہر جرمن پرچم لہرا رہا تھا۔ باصل نے بتایا کہ جرمن پرچم کے تین مختلف رنگ ہیں: سیاہ، سرخ اور پیلا۔ اِسی طرح اس کثیر الثقافتی ٹیم کے بھی مختلف رنگ ہیں۔

Fußball Deutschland gegen Argentinien - Fans
عالمی کپ کے دوران ایسا لگتا تھا کہ سبھی جرمن ہیں۔تصویر: dpa

اصل بات یہ ہے کہ جرمن سیاستدان برسوں سے جرمن معاشرے میں غیر ملکی پس منظر کے حامل شہریوں کے انضمام کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے وہ نت نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔ لیکن آج تک سیاستدان وہ کام نہ کر پائے، جو فٹ بال نے کر دکھایا۔ ماہرین کے مطابق جرمن معاشرے میں یہ ایک مثبت تبدیلی ہے تاہم فٹ بال سے بہت زیادہ امیدیں بھی وابستہ نہیں کرنی چاہیں۔کیونکہ کبھی کبھار جذبات میں آ کر وقتی طور پر انسان سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اس بات کو فراموش نہ کرتے ہوئے کہ جرمنی میں انضمام کے مسائل بہرحال موجود ہیں، اس موقع کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں