کیا افغانستان کی معدنیات نے ٹرمپ کی سوچ تبدیل کی؟
31 اگست 2017کافی انتظار کے بعد بالآخر گزشتہ ہفتے افغانستان سے متعلق نئی امریکی پالیسی پیش کر دی گئی، جس کے مطابق افغانستان سے دہشت گردی کے خاتمے تک امريکی افواج وہیں تعينات رہيں گی۔ امریکی دستوں کے افغانستان میں قیام کی ايک بڑی وجہ وہاں پچھلے چند ماہ کے دوران دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں ہیں۔ تاہم کئی تجزيہ کاروں اور ماہرین کے مطابق افغانستان ميں امريکی دستوں کی موجودگی ميں توسيع کے فیصلے کے پيچھے کچھ اور محرکات بھی ہو سکتے ہيں۔
امريکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ايک رپورٹ کے مطابق ابتدا ميں صدر ٹرمپ مزید امریکی فوجيوں کو افغانستان بھیجنے کے حق میں نہیں تھے۔ وہ در اصل افغان صدر اشرف غنی پر افغانستان کے معدنی ذخائر کی کان کنی پر زور دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق یہ افغانستان ميں اقتصادی اور معاشی استحکام کے لیے اچھا موقع ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے پچھلے ماہ اپنی رپورٹوں ميں لکھا تھا کہ عين ممکن ہے کہ اسی سبب امریکی افواج کا افغانستان میں قيام مزید طویل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہو۔
گزشتہ کئی دنوں سے جاری افغان پالیسی سے متعلق اس بحث میں وائٹ ہاوس میں کئی امور پر بات کی گئی۔ ٹرمپ کے تین سینئیر معاونین نے کیمیا سے متعلق امور کے ایک ماہر مائیکل این سلور سے ملاقات کی اور نایاب زمینی معدنیات کے ذخائر کو نکالے جانے پر تبادلہء خیال کیا۔
اخبار کے مطابق سلور نے، جو معدنیات کے شعبے میں مہارت رکھتے ہیں، امریکی مفاد میں یہ تجویز دی کہ یہ معدنیات ہائی ٹیک مصنوعات بنانے کے کام میں استعمال کی جا سکتی ہیں۔
یقینا ان نایاب معدنیات کے حصول سے جنگ سے متاثر افغانستان کو بھی فائدہ پہنچے گا اور ٹرمپ بھی اس اقتصادی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے کہ سالوں سے جاری اس مہنگی جنگ کی تلافی ان معدنیات کے حصول سے کی جاسکے۔
ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں معدنی ذخائر کی مالیت ایک سے تین کھرب ڈالر کے درمیان ہے۔
زمینی ذخائر سے گھرے اس ملک میں معدنیات کے بڑے خزانے ہیں جن میں تانبا، لوہا، پارہ، کرومائٹ اور زِنک کے ساتھ ساتھ سونے اور چاندی کے بھی ذخائر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں لیتھیم کے بہت بڑے ذخائر دستیاب ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ لیتھیم جو موبائل فون سے لے کر لیپ ٹاپ کی بیٹریوں میں استعمال ہوتا ہے اور مستقبل میں الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں کے لیے بھی لیتھیم کا استعمال اہم ترین ہو گا۔
پچہلے دنوں افغان صدر اشرف غنی نے اپنی تقریر میں کہا کہ وہ امریکا کی افغانستان سے متعلق نئی پالیسی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے افغانستان اور امریکا کے مشترکہ اقتصادی تعاون کو اہمیت دیتے ہوئے اس کو خطے کے لیے خوش آئند قرار دیا تھا۔
غنی کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں اب اس چودہ سالہ طویل افغان تنازعے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں، جو خزانے ہمارے ملک کے پاس ہیں، ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔‘‘
غنی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ گزشتہ دہائیوں میں جاری خلفشار کی وجہ سے افغانستان کو خطےمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچا، جب کہ افغانستان قدرتی وسائل سے مال مال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت معدنی ذخائر کی کان کنی کے شعبے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے گی۔
افغانستان کے نائب وزیر کان کنی اور پیٹرولیم میر احمد جاوید سعادت نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اس انداز کے اشتراک سے متعلق ابھی صرف ایک خاکہ تیار کیا گیا ہے۔ امریکا اور افغانستان کے مابین باضابطہ طور پر کوئی سرکاری معاہدے کاا علان نہیں کیا گیا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کر تے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ افغانستان کی اعلیٰ قیادت کرے گی۔
افغانستان کے امور کی ماہر ایک تنظیم سے وابستہ سید اکرام افضالی نے ڈی ڈبلیو سے بات کر تے ہوئے کہا کہ کابل کو کان کنی کے معاملےکو محتاط نقطہء نظر سے لینا چاہیے۔
افضالی نے مزیدکہا کہ اگر امریکا کی کان کنی کی پالیسی دونوں ملکوں کے لیے فائدے مند ثابت ہوتی ہے تو اس سےافغانستان میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور معاشی استحکام بھی پیدا ہو گا۔
ان کا تاہم کہنا تھا کہ اگر امریکی صدر نے افغانستان میں کان کنی کو مال غنیمت سمجھ کر استعمال کیا اور اس سلسلے میں شفاف راہ نہ اپنائی گئی، تو اس سے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں، جس کا نتیجہ ملک میں تشدد کے واقعات میں اضافہ اور امریکی فوجیوں پر حملوں میں تیزی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
2007 میں امریکی جیولوجیکل سروے کی ایک رپورٹ کے بعد سے افغانستان میں پوشیدہ ذخائر بین الاقوامی دلچسپی کا مر کز بنے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ اب تک ایک خواب ہی ہے کہ زمین کے سینے میں چھپے ان معدنی ذخائر کے ذریعے جنگ سے تباہ حال افغان باشندوں کو غربت سے چھٹکارا ملے۔