کیا بوکو حرام کے رہنما نے خود کشی کرلی؟
7 جون 2021مغربی افریقہ میں سرگرم شدت پسند اسلامی تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ ویسٹ افریقہ پرونس' (آئی ایس ڈبلیو اے پی) نے چھ جون اتوار کے روز جاری کردہ اپنی ایک تازہ آڈیو میں دعوی کیا کہ جہادی گروپ بوکو حرام کے رہنما ابو بکر شیکاؤ نے اس کے ساتھ لڑائی کے دوران خود ہی اپنی جان لے لی۔
آئی ایس ڈبلیو اے پی نے اپنی آڈیو ریکارڈنگ خبر رساں ادارے روئٹرز اور اے ایف پی کے ساتھ شیئر کی ہے اور بتایا ہے کہ کیسے ابو بکر نے خود اپنے آپ کو ہلاک کر لیا۔ اس میں تنظیم کے رہنما ابو مصعب البرانوی کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ شیکاؤ نے ایک دھماکہ خیز خود کش بیلٹ پہن رکھی تھی اور آٹھ مئی کے روز اسی بیلٹ کو اڑا کر اپنی جان لے لی۔
اس آڈیو بیان کے مطابق، ''شیکاؤ نے دنیا میں ذلیل ہونے کے بجائے آخرت میں ذلیل ہونے کو ترجیح دی۔ اللّہ نے انہیں جنت میں بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔''
اس آڈیو میں یہ تفصیل بھی بیان کی گئی ہے کہ آئی ایس ڈبلیو اے پی نے کس طرح سامبیسا کے جنگلوں میں بوکو حرام کے قائد کو نشانہ بنانے کے لیے اپنے چھاپہ ماروں کو وہاں تک بھیجا جنہوں نے ابو بکر شیکاؤ کو اپنی رہائش گاہ میں بیٹھے پا یا اور پھر شدید لڑائی شروع ہوئی۔ اس کے مطابق، ''وہاں سے وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے اور پھر فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو گئے، وہ جنگلوں میں بھی پانچ روز تک چھپے رہنے میں کامیاب رہے تاہم اس کے جنگجو ان کا تعاقب کر تے رہے اور بالآخر پانچ روز بعد ان کا پتہ لگانے میں کامیابی مل گئی۔''
ڈی ڈبلیو آزادانہ طور پر اب تک آئی ایس ڈبلیو اے پی کے ان دعووں کی تصدیق نہیں کر سکا ہے اور نا ہی اس جہادی تنظیم نے اپنے دعوے میں کوئی ثبوت فراہم کیا۔ بوکو حرام نے بھی اپنے رہنما ابو بکر شیکاؤ کی ہلاکت کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا جبکہ نائجیریا کی فوج کا کہنا ہے کہ وہ اس پورے معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔
ابو بکر شیکاؤ نے بوکو حرام کو کافی مضبوط کیا
ابو بکر شیکاؤ سے پہلے تک بوکو حرام ایک چھوٹی سی جہادی تنظیم تھی جسے انہوں نے بڑی محنت سے ایک بڑی شدت پسند جنگجو تنظیم میں بدل دیا جو پورے شمالی نائجیریا میں بڑے حملے کرنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ قتل و غارت گری اور اغوا جیسی کارروائیوں میں بھی کافی سرگرم رہی ہے۔
مہاجرین سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق اس تنظیم کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں تقریباً 30 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس کی وجہ سے لگ بھگ 20 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔
آئی ایس ڈبلیو اے پی بھی ایک وقت بوکو حرام کا ہی حصہ تھی تاہم اس کے ایک گروپ نے پانچ برس قبل اس سے الگ ہو کر جہادی تنظیم داعش سے وفاداری کا اعلان کیا تھا۔ دونوں میں اختلافات کی اہم وجہ یہ تھی کہ بوکو حرام خواتین خود کش بمباروں کو اپنے مخالف مسلم شہریوں کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کرتی تھی۔ آئی ایس ڈبلیو اے پی کو اس حکمت عملی پر مذہبی اور نظریاتی اختلافات تھا اسی وجہ سے دونوں الگ ہو گئے تھے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)