کیا بھارت موسم سرما میں چین کے ساتھ جنگ کی تیاری کر رہا ہے؟
25 اگست 2020ایک ایسے وقت جب لداخ میں لائن آف کنٹرول کے حوالے سے بھارت اور چین کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے بھارت میں پہلی بار فوج کے کسی اعلی عہدیدار نے چین کے خلاف فوج کشی کی دھمکی دی ہے۔ 'چیف آف ڈیفینس اسٹاف' جنرل بپن راوت، جو فوج کے سابق سربراہ ہیں، نے ''چینی سرکشی'' کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ '' بھارت کے پاس عسکری متبادل موجود ہیں لیکن ان کا استعمال اسی صورت میں کیا جائے گا جب بات چیت ناکام ہو جائے۔''
بھارت اور چین کے درمیان لداخ میں ایل اے سی کے حوالے سے شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور دونوں ملکوں کی فوجیں سرحد پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں جس سے سرحدی علاقوں میں حالات کشیدہ ہیں۔ اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بھارت چین کے ساتھ سفارتی اور فوجی سطح پر مذاکرات میں مشغول ہے تاہم کئی دور کی بات چیت کے بعد بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔
اس ماحول میں جنرل بپن راوت نے دائیں بازو کی ایک بھارتی نیوز ایجنسی سے بات چیت میں کہا، ''لداخ میں چینی فوج کی طرف سے خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے عسکری متبادل موجود ہیں، لیکن اس کا استعمال اسی صورت میں کیاجائے گا جب فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت ناکام ہوجائیگی۔''
ان کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب بھارتی فوج حکام، چینی فوجی حکام کے ساتھ پیونگانگ جھیل اور گورگا پوسٹوں پر فوجیوں کو پیچھے ہٹانے کے لیے ایک اور دور کی بات چیت کی تیاری میں مصروف ہے۔ چند روز قبل ہی بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے جنرل راوت، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور تینوں فوجی سربراہوں کے ساتھ اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
بھارت کا موقف ہے کہ ایل اے سی پر رواں برس اپریل تک جو پوزیشن تھی اس کو بحال کیا جائے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی فوجوں کو پہلے کی پوزیشن پر واپس چلے جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں بعض علاقوں میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے اور دونوں جانب کی فوجیں کچھ حد تک پیچھے ہٹی ہیں تاہم بیشتر متنازعہ علاقوں میں صورتحال کشیدہ ہے۔ اس بارے میں سب سے بڑا مسئلہ لداخ کی معروف جھیل پیونگانگ ہے جس میں پہلے بھارت فنگر آٹھ تک گشت کرتا تھا تاہم اب اسے فنگر چار تک ہی رسائی حاصل ہے۔ دوسرا ڈیپسنگ کا علاقہ ہے جہاں دفاعی ماہرین کے مطابق چین پہلے کے مقابلے تقریباً 22 کلومیٹر اندر آگیا ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاملہ ذرا پیچیدہ ہے اور اسے حل کرنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔
کیا بھارت میں چین کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے؟
بھارتی فوج کے سابق افسر جنرل اتپل بھٹا چاریہ لداخ میں بھی ایک مدت تک اپنی خدمات انجام دی تھیں اور وہ اس علاقے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ بھارت کی کوشش تو یہ ہے کہ فوجی یا سفارتی سطح پر بات چیت سے یہ مسئلہ حل ہو جائے لیکن ''چونکہ کئی دور کی بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اس لیے وہ جنگ کی بھی تیاری کر رہا ہے۔ بھارت فعال طریقے سے مذاکرات سے اسے حل کرنے کی کوشش میں ہے لیکن ایسا لگتا کہ اب وہ عسکری طور پر بھی اس کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔''
ریٹائرڈ جنرل اتل بھٹا چاریہ نے جنرل راوت کے بیان پر یہ بھی کہا کہ اعلی فوجی افسران اس طرح کے بیانات اس لیے بھی دیتے رہتے ہیں تاکہ فوج کا حوصلہ بلند رہے۔ ''تمام قرائن و قیاس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رواں برس کے اختتام تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ موسم سرما بھارت کے لیے بہت اہم ہوگا اور لداخ میں ٹھنڈ کے موسم میں ہی بھارت جنگ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔''
اس سوال کے جواب میں کہ کیا بھارت چین کا مقابلہ کر سکے گا، انہوں نے کہا، ''بھارتی فوج پہلے سے اب بہت مضبوط ہے۔ یہ سنہ 62 نہیں ہے بھارت اس سے بہت آگے نکل چکا ہے۔''
لیکن بعض دیگر دفاعی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ موسم سرما میں لداخ میں چین کے ساتھ جنگ لڑنا بھارت کے لیے بہت مشکل ہے۔ ایک سابق فوجی افسر کا کہنا تھا، ''بھارت کے لیے اس موسم میں چین سے ٹکر لینا بہت مہنگا پڑ سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بات چیت پر اپنی تمام کوششیں مرکوزکر رہا ہے۔''
بھارتی دفاعی ماہرین اور تجزیہ کار کہتے رہے ہیں کہ جس انداز سے چین نے ایل اے سی کے کئی علاقوں میں اپنی فوج کو فی الوقت تعینات کر رکھا ہے اس سے بھارت کے وہ کئی علاقے جس پر اس کا دعوی رہا ہے، چین کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔ لیکن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ایک بیان میں اس تاثر کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ بھارت کی ایک انچ زمین بھی کسی کے قبضے میں نہیں ہے۔ تاہم حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے اس بیان کو جھوٹا قرار دیا تھا۔