کیا سعودی عرب بھی بیلسٹک میزائل کی تیاری میں مصروف ہے؟
26 جنوری 2019سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے بیلسٹک میزائل سازی کے پروگرام کو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ایک سابقہ بیان سے وزن ملتا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ایران اپنے میزائل سازی کے سلسلے کو موقوف نہیں کرتا تو اُن کا ملک بھی بیلسٹک میزائل سازی کا پروگرام شروع کر سکتا ہے۔
سيٹلائٹ سے لی گئی تصاوير کی بنياد پر دفاعی ماہرين کی رائے ہے کہ سعودی عرب ميں ايک فوجی اڈے پر بيلسٹک ميزائلوں کے تجربات اور امکاناً پيداوار بھی شروع کر دی گئی ہے۔ دارالحکومت رياض سے 230 کلوميٹر مغرب کی طرف واقع شہر الدوادمی کے قریب واقع اس فوجی اڈے کی تصاوير کے بارے ميں سب سے پہلے ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہرمونیٹری میں واقع مِڈلبری انسٹیٹیوٹ برائے انٹرنیشنل سٹڈیز کے میزائل سازی کے ماہر جیفری لوئیس کا خیال ہے کہ میزائل سازی کے اتنے وسیع پراجیکٹس پر اتنی بڑی سرمایہ کاری کو ایک طرح سے جوہری ہتھیار سازی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ جیفری لوئیس نے یہ بیان سیٹلائٹ امیجز کا مطالعہ کرنے کے بعد دیا۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب تک سعودی حکومت کی دفاعی صلاحیتوں کا اندازہ کم لگایا گیا ہے۔
تازہ تصاویر کے حوالے سے واشنگٹن کے بین الاقوامی اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے مرکز سے وابستہ مائیکل ایلیمین نے بھی اندازہ لگایا ہے کہ یہ بیلسٹک میزائل سازی کا سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔ جیفری لوئیس نے میزائل ٹیکنالوجی کے حوالے سے واضح کیا کہ جسامت میں یہ چھوٹا میزائل ہے اور چینی میزائل ٹیکنالوجی کا شائبہ بھی محسوس ہوتا ہے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ ہفتہ وار چھپنے والے دفاعی میگزین جین نے بھی سن 2013 میں الدوادمی کے خصوصی فوجی مرکز کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق اس فوجی مقام پر بیلسٹک میزائل کو داغنے کے دو لانچنگ پیڈز بظاہر چین سے خرید کر نصب کیے گئے تھے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ميں سعودی سفارت خانے اور رياض حکومت نے اس بارے ميں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس تناظر میں یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ سعودی عرب نے بیلسٹک میزائل سازی کی ٹیکنالوجی کس ملک سے حاصل کی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چین کی جانب سے سعودی عرب کے لیے فوجی نوعیت کی ٹیکنالوجی کی فراہمی بعید از قیاس اور باعث حیرت نہیں ہے۔