1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا قرضے معاف کرانے سے کورونا پر قابو پایا جا سکتا ہے؟

17 مارچ 2020

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے بقول اگر قرضے معاف نہ کیے گئے تو وہ کورونا وائرس کی وبا پر قابو نہیں پا سکیں گے،’’ نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت، ایران اور کئی افریقی ممالک بھی اس وائرس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔‘‘

https://p.dw.com/p/3ZaC4
Screenshot Exklusivinterview mit Imran Khan

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان نے کہا،'' اگر پاکستان میں کورونا وائرس وبا کی صورت اختیار کر گیا تو ہم اس پر قابو نہیں پا سکیں گے، ہمارے پاس اس پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ بھارت اور کئی افریقی ممالک بھی اس کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔

Pakistan Währung Wechsel Dollar Rupien Geldscheine
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam

معیشت کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نے کہا، ''سست روی کی شکار معیشت کے باعث مجھے بھوک اور غربت بڑھنے کا اندیشہ ہے اور اس لیے عالمی برادری کو پاکستان جیسے ممالک کے قرضے معاف کرنا ہوں گے۔ ایسا کرنے سے ہم کورونا وائرس کے خلاف اقدامات اٹھا پائیں گے۔‘‘ عمران خان کا کہنا تھا کہ ایران پر عائد پابندیوں کے باعث وہاں عوام پہلے ہی متاثر تھی اور اب کورونا وائرس کے باعث ایران پر مزید بوجھ بڑھ گیا ہے۔

عمران خان کے بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستانی شہری نیلوفر آفریدی نے ٹویٹ میں کہا، '' تو کیا قرضہ معاف کروانے کے بعد بجٹ غربت کے خاتمے کے لیے استعمال ہوگا، کیا بجٹ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوگا اور کیا سب کو تعلیم میسر ہو گی ؟‘‘

ایک امریکی شہری اسٹیو ایڈیمز کا کہنا تھا، ''پاکستان کو سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک سے مالی مدد مانگنی چاہیے‘‘۔

پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد قریب دو سو ہو گئی ہے۔ ان میں سے اکثریت ایران سے پاکستان پہنچی ہے۔ پاکستان کی جانب سے تفتان کے مقام پر ایران سے آئے زائرین کو چودہ روز قرنطینہ میں رکھا جا رہا۔ خدشات ہیں کہ وہاں موجود افراد میں یہ وائرس تیزی سے پھیل سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر کئی پاکستانی شہری اور صحافی کورونا وائرس کے خلاف وفاقی اور پنجاب حکومت کے اقدامات سے ناخوش نظر آ رہے ہیں۔ پاکستانی صحافی مہر بخاری کا کہنا تھا،''عثمان بزدار کہاں ہیں؟ ، محمود خان کہاں ہیں؟ وہ کیوں عوام کو کورونا وائرس کے بارے میں آگاہ نہیں کر رہے ؟ سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ عوام تک تمام معلومات باخوبی پہنچا رہے ہیں۔‘‘

کالم نویس عمار مسعود کا کہنا تھا،''جناب وزیر اعظم! پلیز آگے بڑھیں اور کرونا وائرس کا وہی حال کر دیں جو آپ نے پورے ملک کا کر دیا ہے۔‘‘

پاکستانی صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے شہری فاروق بھایو کا کہنا تھا، ''تفتان بارڈر پر نامکمل انتظامات کی وجہ سے جس طرح لوگوں کو کورونا وائرس کا شکار کیا گیا اس نااہلی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘‘

پاکستانی صحافی سلیم صافی نے اپنی ٹویٹ میں کہا، ''اگر کسی وزیر مشیر  نے اثر نہیں ڈالا تو پھر سوال یہ ہے کہ ایران سے آنے والے پاکستانیوں سے متعلق وہ پالیسی کیوں نہیں اپنائی گئی جو چین میں موجود پاکستانیوں سے متعلق اپنائی گئی تھی اور جس کی ہم جیسے حکومت کے نقادوں نے بھی تائید کی۔‘‘

سوشل میڈیا پر صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار کی جانب سے صوبے میں مساجد نہ بند کیے جانے کے فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

غربت اور مہنگائی: نئی حکومت پرانے عوامی مسائل حل کرے گی؟

 

 ب ج / ع ا ( اے پی)