گزشتہ برس لاکھوں مزید لوگوں کو بھوک سے دو چار ہونا پڑا
5 مئی 2022اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی ایجنسیوں کی جانب سے چار مئی بدھ کے روز جو تازہ رپورٹ شائع کی گئی ہے، اس کے مطابق ماضی کے مقابلے میں سن 2021 میں بھوک کا مسئلہ اپنی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا۔
یوکرین کی جنگ نے عالمی خوراک کی پیداوار کو متاثر کیا ہے اور اس پس منظر میں اقوام متحدہ نے آئندہ اس سے بھی زیادہ مایوس کن منظرنامے کی پیش گوئی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد نئی ''خوفناک'' سطح تک پہنچنے کو ہے، جنہیں یومیہ کھانے کو بہت ہی کم میسر ہو گا۔
خوراک کے بحران پر کام کرنے والی یوروپی یونین کی ایجنسی گلوبل نیٹ ورک، خوراک اور زراعت سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (ایف اے او) اور 'ورلڈ فوڈ پروگرام' (ڈبلیو ایف پی) کا مشترکہ طور پر کہنا ہے کہ عالمی تنازعات، سخت ترین موسم کی مار اور کورونا وائرس کی وبا جیسے تینوں زہریلے عوامل غذائی تحفظ میں کمی کے اہم ذمہ دار ہیں۔
تقریباً بیس کروڑ افراد کو 'شدید' خطرات کا سامنا
سن 2021 میں، 53 ممالک کے تقریباً 193 ملین افراد بھوک کے ''شدید'' خطرے سے دو چار رہے۔ اس حوالے سے سن 2020 کے جو اعداد و شمار دستیاب ہیں اس کے مطابق گزشتہ برس تقریباً چار کروڑ بھوکے افراد کا اضافہ ہوا۔
جمہوریہ کانگو، یمن، افغانستان، ایتھوپیا، سوڈان، شام اور نائیجیریا جیسے ممالک میں جاری تنازعات نے وہاں پر غذائی تحفظ کے خطرے کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ شدید موسم کا باعث بننے والی ماحولیاتی تبدیلیوں نے بھی صورتحال کو بد سے بد تر کر دیا ہے۔
امداد اور حمایت کا فقدان
ان ایجنسیوں کے مشترکہ تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ برس ایتھوپیا، جنوبی سوڈان، جنوبی مڈغاسکر اور یمن جیسے ممالک میں پانچ لاکھ سے بھی زائد افراد کو فاقہ کشی کا خطرہ لاحق تھا۔
اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں بھوک کے خطرے سے دوچار لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنے کے لیے اضافی مالی امداد کے ساتھ ہی مضبوط سیاسی عزم کا بھی مطالبہ کیا۔
ص ز/ ج ا (اے پی،ڈی پی اے)