گندم کی کاشت کا روایتی طریقہ، ايک خاموش قاتل
8 دسمبر 2020
فضائی آلودگی پاکستان کے ماحولیاتی مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تاہم سردیوں کی آمد کے ساتھ گندم کی پیداوار کے لیے زمین کو ہموار بنانا، کسانوں کے لیے ایک ضروری عمل ہے۔ اس مقصد کے ليے پہلے چاول کے کھیتوں کی گھاس پھونس جلانا پڑتی ہے اور پھر زمین کو ہموار کر کے اس پر گندم کی فصل لگائی جاتی ہے۔ اس عمل کے باعث فضا میں اٹھنے والا دھواں پہلے سے ہی انتہائی آلودہ ماحول کو مزید آلودہ بنا دیتا ہے۔ پاکستانی زراعت کی صنعت کو آلودگی پر قابو پانے اور گندم کی پیداوار کے لیے کھیتوں کو ماحول دوست انداز سے صاف کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی شدید ضرورت ہے۔
لاہور میں فضائی آلودگی کی ہنگامی صورتحال
سردیوں کی آمد آمد ہے اور پاکستان کے صوبہ پنجاب کا مرکزی شہر لاہور دھوئیں، اسموگ اور دھند سے گھرا ہوا ہے۔ لاہور شہر کے ارد گرد چاول اور گندم کے کھیت ہیں۔ پاکستان کی 'ایئر کوالٹی‘ یا ہوائی معیار کی جانچ کرنے والے مانیٹرز باقاعدگی سے اس شہر کی ہوا میں پائی جانے والی آلودگی کا اندازہ لگاتے رہتے ہیں اور اس بارے میں محکمہ موسمیات اور زراعت کو متنبہ کرتے رہتے ہیں۔ ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر WWF کے کلائمیٹ اور انرجی پروگرام کی رابطہ کار فرح راشد کا کہنا ہے، ’’لاہور کے ایئر کوالٹی مانیٹر کی جانب سے نومبر کے ماہ میں اس شہر میں صحت کی صورتحال کے حوالے سے مسلسل پُر خطر اندازے سامنے آتے رہے ہیں۔ یہ ایک طرح کی طبی ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔‘‘ دريں اثناء حکومت پنجاب نے لاہور کے ارد گرد کے علاقوں کے 500 کسانوں کو ایسی مشینیں فراہم کر رکھی ہيں جن کی مدد سے چاول کی کاشت کے بعد فصل پر بچی کچی گھاس پھونس کو جلائے بغیر زرعی زمین کو صاف کر کے انہیں گندم کی فصل اگانے کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔
کسان عامر حیات بھنڈارا اپنے ایک دوست کے بڑے فارم پر ان نئی مشینوں کو استعمال کر چکا ہے۔ وہ کہتا ہے،'' یہ ایک انتہائی کارآمد ٹکنالوجی ہے۔ ان کا استعمال حقیقتاً ہم کسانوں کی زندگی کو آسان بنا سکتا ہے۔‘‘ عامر حیات بھنڈارا کا تعلق صوبے پنجاب کے علاقے پاک پٹن سے ہے۔
خاموش قاتل
پاکستان کے وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم فضائی آلودگی کو 'خاموش قاتل‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران لاہور میں اسموگ یا آلودگی سے پیدا ہونے والی دھند کی شدت غیر معمولی حد تک بڑھی ہے۔ انہوں نے ہر سال اکتوبر کے ماہ میں چاول کی فصل کی کاشت کے لیے کسانوں کے روایتی طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چاول کی کاشت اور اس کی زمین کو صاف کرنے کے لیے اب تک کسان جو روایتی 'کمبائن مشینیں‘ استعمال کرتے آئے ہیں ان کے نتیجے میں قریب چار انچ کے تنکے اور گھاس پھونس کا ملبہ اکٹھا ہو جاتا ہے۔ ملک امین اسلم نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا کہ اس کے دو ہفتے بعد ہی انہی کھیتوں کو ہموار بنایا جاتا ہے تاکہ ان میں گندم اگائی جا سکے۔ اس کے لیے تنکوں اور گھاس پھونس کو جلانا ہی سب سے تیز رفتار اور موثر طریقہ ثابت ہوتا ہے۔
پاکستان میں چاول کی فصل دو ملین ہیکٹر پر اُگائی جاتی ہے۔ یہ فصلیں زیادہ تر صوبہ سندھ اور پنجاب میں ہوتی ہیں۔ ہر سال چاول کی فصل کے اختتام پر ان کھیتوں کو جلایا جاتا ہے تاکہ یہ سردیوں میں گندم کی کاشت کے لیے استعمال ہو سکیں۔
موسمیاتی آلودگی کے ذمہ دار صرف کسان نہیں
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی 2018 ء کی ايک رپورٹ میں پاکستانی صوبہ پنجاب میں اسموگ کی بنیادی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا تھا کہ موسمیاتی آلودگی اور ضرر رساں گیسوں کے مجموعی اخراج کے 20 فیصد حصے کا ذمہ دار کھيتوں ميں چاول کی فصل کی خشک باقیات کو جلانے کا عمل ہوتا ہے۔ صوبہ پنجاب میں صنعتیں ماحولیاتی آلودگی کے ایک چوتھائی حصے کی ذمہ دار ہیں جبکہ ٹرانسپورٹ انڈسری یا نقل و حمل کے ذرائع سے پیدا ہونے والا دھواں یا ماحولیاتی آلودگی کُل آلودگی کے 40 فیصد سے زیادہ کا سبب بنتی ہے۔ ان دونوں کے بعد چاول کی فصل کی باقیات کو جلانے کا عمل موسمیاتی آلودگی کے 20 فیصد کا ذمہ دار ہے۔
جدید ٹيکنالوجی والی مشینوں کے استعمال سے زمین پر بھونسہ جلانے کی بجائے گھاس پھونس کو زمین کے اندر کھاد بننے کے لیے دفنانے سے کاربن کے اخراج میں کمی آئے گی جو آب و ہوا کی تبدیلی میں موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔
ک م/ ع س/ رائٹرز