گولان کی پہاڑیوں کا تنازعہ، امریکی موقف میں حیران کن تبدیلی
22 مارچ 2019امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات اکیس مارچ کو کہا ہے کہ باون برسوں کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ امریکا گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی مکمل جغرافیائی حاکمیت کو تسلیم کر لے۔ ٹرمپ کے مطابق یہ علاقہ اسرائیلی ریاست کی سکیورٹی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اُدھر اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی صدر کے اعلان کو پورِم کے مقدس تہوار پر رونما ہونے والا معجزہ قرار دیا ہے۔
گولان ہائٹس کے معاملے کو ایک دن قبل اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ زیر بحث لائے تھے اور ٹرمپ کے اعلان کو اُس کا تسلسل خیال کیا گیا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی حکام کے مطابق اس مناسبت سے واشنگٹن سے باضابطہ اعلان امکاناً نیتن یاہو کے اگلے ہفتے کے دوران شروع ہونے والے دورہٴ امریکا کے موقع پر ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ کے اس فیصلے سے اسرائیل میں ہونے والے عام انتخابات میں وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی پوزیشن کو یقینی طور پر تقویت حاصل ہو گی۔ اسرائیلی پارلیمانی انتخابات کا انعقاد نو اپریل کو ہو گا۔
دوسری جانب امریکی صدر کے بیان کی کئی عالمی لیڈروں نے مذمت کی ہے۔ روس نے اسے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل قرار دیا ہے۔ اس دوران شامی حکومت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گولان کی پہاڑیوں سے متعلق سابقہ موقف کو اچانک تبدیل کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اس امریکی فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صیہونی قبضے کے ساتھ ساتھ جارحانہ اقدامات کی حمایت کا تسلسل ہے۔ عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ نے بھی شامی موقف کی حمایت کرتے ہوئے اس امریکی فیصلے کو بین الاقوامی قانون کی حدود سے تجاوز قرار دیا ہے۔
گولان کی پہاڑیوں کو قرب و جوار کے لیے پانی کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ انہی پہاڑیاں کے چشموں سے بہنے والا پانی دریائے اردن کے ساتھ بحیرہ گلیلی یا جھیل طبریا کو بھرتا ہے۔ یہ جھیل اس سارے علاقے میں تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ یہ سمندر نما جھیل خطے کی ستر فیصد آبادی کے پینے کے پانی کی ضروریات پوری کرتی ہے۔ اس میں سے اسرائیل کی کل آبادی کا چالیس فیصد بھی مستفید ہوتا ہے۔