گھریلو تشدد کے خلاف مؤثر آواز وقت کی ضرورت
12 ستمبر 2014شمالی جرمنی کے شہر روسٹاک کی رہنے والی ایک نوجوان لڑکی نے اپنے اوپر ہونے والے گھریلو تشدد کی تصاویر انٹرنیٹ پر شائع کر کے جرمن سماجی و حقوق کے علمبردارحلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔ یہ ابھی تک تعین نہیں ہو سکا کہ نوجوان لڑکی کو کس نے اور کہاں تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
اسی طرح سولہ امریکی خواتین سینیٹرز نے بھی بالٹی مور کے مشہور کھلاڑی رے رائس کی اُس ویڈیو پر شدید احتجاج کیا ہے، جس میں وہ اپنی سابقہ منگیتر جینی پالمر پر تشدد کر رہے ہیں۔ سینیٹرز نے نیشنل فٹ بال لیگ سے کہا ہے کہ ایسا فعل کرنے والوں کو تادیبی سزا دینا ضروری ہے۔ ایک تازہ قانون کے تحت امریکا میں کوئی بھی کھلاڑی اگر ایسا کرے تو وہ کم از کم چھ ماہ کے لیے کھیل میں شرکت کا اہل نہیں رہتا۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم غیر سرکاری تنظیم نیشنل نیٹ ورک برائے انسداد ڈومیسٹک وائلینس کی چیف ایگزیکٹو آفیسر کِم گینڈی کا کہنا ہے کہ ایسی ویڈیو کا ٹیلی وژن چینلز پر نشر کرنا خاص طور پر متاثرہ خاتون کے لیے مزید پریشانی کا باعث بننے کے علاوہ سماجی سطح پر بھی کسی بھلائی کا سبب نہیں ہو سکتا۔ کِم گیینڈی کے مطابق ایسی ویڈیوز سارے ملک میں ایک بحث کے آغاز کے ساتھ اُن کے لیے بھی نفسیاتی مسائل کا سبب بن سکتی ہیں، جنہیں تشدد سے بچایا جا چکا ہے۔ اسی طرح خواتین کے حقوق کے ایک اور ادارے نیشنل آرگنائزیشن برائے ویمن کی صدر ٹیری او نیل کا بھی کہنا ہے کہ یہ ویڈیو حقوق کے منافی عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے اور انتہائی عامیانہ انداز میں یہ تشدد کیا گیا ہے۔
یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے ادارے EU Fundamental Rights Agency کی مرتب کردہ رپورٹ کا اِجرا رواں برس مارچ میں کیا گیا تھا۔ یورپی یونین میں خواتین کی مجموعی صورت حال کی بابت اس اہم ادارے کی رپورٹ کو کلیدی نوعیت کی ریسرچ قرار دیا گیا ہے۔ اِس رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں ہر تیسری عورت کو جنسی زیادتی یا جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے اس رپورٹ کو دنیا کی سب سے بڑی ریسرچ قرار دیا گیا تھا۔ اس کے لیے بنیادی حقوق کے ادارے (FRA) نے یونین کی رکن تمام ریاستوں سے اعداد و شمار اکھٹے کیے تھے۔ اس دوران کُل 42 ہزار خواتین سے انٹرویو کیا گیا۔
یورپی یونین کے ادارے FRA کی سربراہ مورٹن کیژوم کے مطابق یورپ بھر میں خواتین گلیوں میں محفوظ نہیں، گھر کے اندر بھی وہ پرسکون حالات سے محروم ہیں حتیٰ کہ انہیں ملازمت کے مقام پر بھی نامناسب ماحول کا سامنا رہتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورپ میں سن 2012 سے قبل کے بارہ مہینوں یا اس سے کچھ زیادہ عرصے کے دوران 13 ملین خواتین کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسی عرصے کے دوران 3.7 ملین خواتین کو جنسی زیادتی کا سامنا رہا۔ رپورٹ کے لیے جن خواتین سے انٹرویو کیا گیا، ان کے مطابق ڈنمارک، فن لینڈ اور سویڈن وہ ممالک ہیں جہاں خواتین کی سب سے زیادہ تعداد کو مختلف قسم کے تشدد کا سامنا رہا۔
ریسرچ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یورپی یونین کی رکن ریاستوں کی ایک چوتھائی خواتین کو پندرہ سال سے کم عمر میں والدین کی جانب سے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بارہ فیصد خواتین جب لڑکیاں تھیں تو نامعلوم افراد نے انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ یورپی یونین کے ملکوں کی 45 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں ان کی مرضی کے خلاف چھو کر ہراساں کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ انہی خواتین کو بعض اوقات غیر اخلاقی مذاق، نامناسب پیغامات یا پورنوگرافی کے علاوہ جنس مخالف کے پوشیدہ اعضاء دیکھنے پر بھی مجبور کیا گیا۔ اِن خواتین کے مطابق بظاہر ان کے جسم پر کوئی نشان تو نہیں ظاہر ہوا لیکن وہ نفسیاتی اعتبار سے اپنے ذہن پر دھبہ محسوس ضرور کرتی رہی ہیں۔