ہالینڈ: مہاجرین کے خلاف مظاہرے کا نتیجہ تشدد، فائرنگ
17 دسمبر 2015ہالینڈ کے شہر اُٹرَیشٹ کے قریب ہی واقع گیلڈرمالسن نامی اس قصبے کی بلدیہ میں بدھ سولہ دسمبر کے روز ایک اجلاس جاری تھا۔ اجلاس کے دوران اس قصبے میں پناہ گزینوں کے لیے رہائش کا عبوری بندوبست کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا جانا تھا۔ اس موقع پر ستائیس ہزار نفوس پر مشتمل اس قصبے کے قریب دو ہزار باسیوں نے پناہ گزینوں کے لیے مجوزہ شیلٹر ہاؤس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کر رکھا تھا۔
مظاہرین میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی تھی۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اجلاس کے دوران مظاہرین اس مجوزہ منصوبے کے خلاف بینر اٹھائے اور مہاجرین مخالف نعرے لگاتے ہوئے بلدیہ کی عمارت کے باہر تک پہنچ گئے۔ پھر مظاہرین نے بلدیہ کی عمارت کے اندر زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی، جس کے باعث صورت حال کشیدہ ہو گئی۔
مقامی ذرائع ابلاغ پر دکھائے جانے والے مناظر میں دیکھا گیا ہے کہ احتجاج میں شامل نوجوان مظاہرین نے پولیس پر بیئر کی بوتلیں پھینکیں اور پتھراؤ بھی کیا۔ اس پر صورت حال کو قابو میں لانے کے لیے پولیس کو ہوائی فائرنگ کرنا پڑ گئی۔
قصبے کی پولیس نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں بتایا کہ بہت سے افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم پولیس نے گرفتار کیے گئے افراد کی تعداد نہیں بتائی۔ مظاہرے کے دوران متعدد افراد زخمی بھی ہوئے تاہم کسی کو شدید چوٹیں نہیں آئیں۔ روئٹرز نے اس بارے میں آج اپنی رپورٹوں میں لکھا کہ یہ بدامنی بدھ کو سہ پہر کے وقت شروع ہوئی تھی لیکن پولیس رات گئے تک مظاہرین کو منتشر کرنے میں ناکام رہی۔
احتجاج کے باعث بلدیہ کا اجلاس منسوخ کرنا پڑا گیا اور پولیس نے بلدیہ کے منتخب اراکین کو بحفاظت عمارت کے پچھلے راستے سے باہر نکالا۔ منصوبے کے تحت اس قصبے میں پندرہ سو پناہ گزینوں کو رہائش فراہم کی جانا تھی۔
ہالینڈ کے نائب وزیر انصاف کلاس ڈائکوف مہاجرین اور تارکین وطن کے بارے میں بنائی جانی والی ملکی پالیسی کے نگران بھی ہیں۔ ڈائکوف نے اس پرتشدد مظاہرے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسے ’غیر ولندیزی‘ رویے کا نتیجہ قرار دیا۔
ہالینڈ میں رونما ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے قبل اکتوبر میں انتہائی دائیں بازو کے ایک گروہ کی جانب سے پناہ گزینوں کی ایک رہائش گاہ پر حملہ بھی کیا گیا تھا۔ اس شیلٹر ہاؤس میں بہت سے شامی مہاجرین مقیم تھے۔