ہانگ کانگ: جمہوریت نواز کارکنان کا اقبال جرم کا فیصلہ
23 نومبر 2020ہانگ کانگ میں جمہوریت کے لیے جد و جہد کرنے والے معروف کارکن جوشوا وانگ نے پیر 23 نومبر کو کہا کہ گزشتہ برس ہونے والے مظاہروں کے حوالے سے ان پر جو بھی الزامات عائد کیے گئے ہیں، عدالت میں وہ ان کا اعتراف کرلیں گے۔ جوشوا کا ساتھ دیتے ہوئے ان کے دو ساتھی ایوان لیم اور اگنیس چاؤ نے بھی ایسا ہی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جوشوا وانگ نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ''ہم تینوں نے الزامات کا اعتراف کرلینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیر سے کیس پر سماعت ہونے کے بجائے فوری طور پر سزا سنائی جائے گی۔ اگر مجھے آج ہی حراست میں لے لیا جائے تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہیے۔''
جوشوا وانگ نے اس سے پہلے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ایک ایسے وقت جب ارکان اسمبلی کو برخاست کردیا گیا ہے، پولیس کی زیادتیوں کو عیاں کرنے کے لیے صحافیوں کے خلاف مقدے درج کیے جا رہے ہیں اور سکیورٹی کے نام پر یونیورسٹیوں کی تفتیش ہورہی ہے، تو اس بات پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے اگر پیر کو سماعت کے فوری بعد انہیں قید کر لیا جائے۔
ہانگ کانگ کے ان تینوں کارکنان پر گزشتہ برس پولیس ہیڈکوارٹرز کے سامنے احتجاجی مظاہروں کے لیے مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ پچھلے سال موسم گرما میں جمہوریت کے حق میں شروع ہونے والے مظاہرے اور ریلیاں سات ماہ تک جاری رہی تھیں اور اس دوران کئی بار تشدد کے واقعات بھی پیش آئے تھے۔ ان مظاہروں کی قیادت جوشوا اور ان کے ساتھی کر رہے تھے۔
اس موقع پر جوشوا نے اپنی جد و جہد کے تئیں اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا، ''میں اس بات کا قائل ہوچکا ہوں کہ نہ تو جیل کی سلاخیں، نہ ہی انتخابات پر پابندیاں یا کوئی مطلق العنان طاقتیں ہمیں ہماری سرگرمیوں سے باز نہیں رکھ سکتیں ہیں۔ ہم جو کر رہے ہیں وہ ایک طرح سے دنیا کے سامنے آزادی کی قدروں کا اظہار ہے۔''
گزشتہ برس ہانگ کانگ میں حوالگی کے تعلق سے ایک نیا قانون متعارف کروایا گیا تھا اور اسی کے بعد مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ نئے قانون کے مطابق ہانگ کانگ کے مفرور ملزمان کو بھی مقدمات کے لیے چین کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ جوشوا اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کی تشویش تھی کہ اس سے ہانگ کے شہریوں کو چین کے سخت ترین قوانین کا سامنا کرنا پڑے گا اور اسی کی مخالفت کے لیے مہم چھیڑی تھی۔
اس مقدمے کے آغاز سے چند روز قبل وانگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا تھا کہ انہیں عدالت کی کاروائی پر اعتماد نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''ہانگ کانگ کی عدالتوں میں بیجنگ کے حکام کا عمل دخل بہت زیادہ ہے، اور ہانگ کانگ میں قانون کی حکمرانی برائے نام ہے۔''
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)