ہزاروں افراد کا کنٹرول لائن کی طرف مارچ
5 اکتوبر 2019بھارتی حکومت نے آج سے ٹھیک دو ماہ قبل یعنی پانچ اگست کو اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی۔ اس وقت کے بعد سے بھارتی زیر انتظام کشمیر مسلسل باقی دنیا سے کٹا ہوا ہے۔ وہاں میڈیا پر سخت قدغنیں ہیں اور شہری مسلسل دو ماہ سے کرفیو جیسے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں وہاں کشمیریوں کے بنیادی حقوق سلب کیے جانے پر شدید تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔
ان حالات میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے ہزاروں افراد نے لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ شروع کر دیا ہے۔ یہ مارچ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے کارکنوں نے شروع کیا ہے۔ یہ تنظیم آزاد اور خود مختار کشمیر کی حامی ہے۔ خیال رہے کہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائن پر دونوں ممالک کی بھاری فوجی نفری تعینات ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک رہنما توقیر گیلانی نے کہا ہے کہ مارچ کرنے والے یہ افراد چکوٹھی کے قریب کنٹرول لائن کو عبور کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مارچ میں شامل افراد رات راستے میں ہی بسر کریں گے اور کل اتوار چھ اکتوبر کی صبح اپنا مارچ دوبارہ شروع کریں گے۔
دوسری طرف پاکستانی زیرانتظام کشمیر کے ایک سینیئر پولیس افسر ارشد نقوی نے کہا ہے کہ سکیورٹی تحفظات کے سبب کسی کو بھی کنٹرول لائن عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اسی دوران پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھی کنٹرول لائن عبور کرنے کی کسی بھی کوشش کو کشمیریوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف قرار دیا ہے۔
اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں عمران کا کہنا تھا، ''میں مقبوضہ کشمیر میں دو ماہ سے جاری غیر انسانی کرفیو میں گھرے کشمیریوں کے حوالے سے آزاد کشمیر کے لوگوں میں پایا جانے والا کرب سمجھ سکتا ہوں۔ لیکن اہل کشمیر کی مدد یا جدوجہد میں ان کی کی حمایت کی غرض سے جو بھی آزادکشمیر سے ایل او سی پار کرے گا وہ بھارتی بیانیے کے ہاتھوں میں کھیلےگا۔‘‘
اپنے اس پیغام میں پاکستانی وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا، ''وہ بیانیہ جس کے ذریعے پاکستان پر اسلامی دہشت گردی کا الزام لگا کر ظالمانہ بھارتی قبضے کے خلاف اہل کشمیر کی جائز جدوجہد سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایل او سی پار کرنے سے بھارت کو مقبوضہ وادی میں محصور لوگوں پر تشدد بڑھانے اور جنگ بندی لکیر کے اس پار حملہ کرنے کا جواز ملے گا۔‘‘