1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہمیں کوئی قتل تو نہیں کر رہا‘

26 فروری 2018

ان کے گھر پلاسٹک کی شیٹوں اور بانسوں کی مدد سے بنے ہیں، خوراک امدادی اداروں کی طرف سے آ رہی ہے جبکہ ملازمتوں کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی زندگی ایک خوفناک خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/2tKD4
Rehana Khatun Rohingy
Rohingya Frau mit Kind
تصویر: Reuters/M. Ponir Hossain

میانمار میں چھ ماہ قبل جب حکومتی فورسز نے راکھین کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مبینہ کریک ڈاؤن شروع کیا تو مہاجرین کا سیلاب بنگلہ دیش کی طرف روانہ ہوا۔ کم از کم سات لاکھ روہنگیا مسلمان اس وقت بنگلہ دیش میں ابتر حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی میانمار واپسی کا امکان بظاہر نظر نہیں آتا۔ سب مشکلات کے باوجود یہ مہاجرین بنگلہ دیش میں خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔

میانمار میں روہنگیا کے 55 گاؤں مسمار کیے گئے، ایچ آر ڈبلیو

روہنگیا بحران، سماج میں بڑھتی نفرت انگیزی کا نتیجہ ہے، ایمنسٹی 

کیا روہنگیا مہاجرین کی میانمار واپسی ممکن ہو سکے گی؟

بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کے مصائب

’’کم ازکم ہمیں یہ خطرہ نہیں کہ کوئی ہمیں قتل کرنے آ رہا ہے‘‘۔ یہ کہنا ہے کہ محمد امان اللہ کا، جو اس وقت کوکس بازار میں ایک عارضی شیلٹر ہاؤس میں رہائش پذیر ہے۔ گزشتہ برس راکھین میں اس کا گھر تباہ کر دیا گیا تھا اور وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ بنگلہ دیش مہاجرت پر مجبور ہو گیا تھا۔ اس کا کہنا ہے، ’’یہاں امن ہے۔‘‘

ٹھیک چھ ماہ قبل پچیس اگست کو روہنگیا باغیوں نے راکھین میں واقع متعدد سیکورٹی چیک پوائنٹس پر حملہ کرتے ہوئے چودہ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کے کچھ گھنٹوں کے بعد ہی راکھین میں فساد شروع ہو گئے۔

تب میانمار کی فوج اور مقامی بدھ کمیونٹی نے روہنگیا مسملمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں شروع کر دیں۔ یوں سینکڑوں روہنگیا افراد کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کا عمل شروع کر دیا گیا۔ اس تمام عمل میں روہنگیا کے کئی دیہات بھی نذر آتش کر دیے گئے۔

اس فساد کو شروع ہوئے اب چھ ماہ بیت چکے ہیں لیکن بنگلہ دیش میں موجود روہنگیا مسلمانوں کی واپسی کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی ہے۔ عالمی کوششوں سے بنگلہ دیش اور میانمار نے ان مہاجرین کی پرامن واپسی کی ایک ڈیل کو حتمی شکل تو دی ہے لیکن اس پر عملدرآمد میں کئی مشکلات درپیش ہیں۔

امان اللہ کہتے ہیں، ’’اگر وہ (میانمار حکومت) ہمیں واپس بلانے کو تیار ہے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن یہ آسان کام نہیں۔ میانمار کو ہمیں شہریت دینا ہو گی کیونکہ وہ ہمارا وطن ہے۔ بغیر شہریت کے وہاں ہمیں دوبارہ تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ وہ ہمیں ہلاک کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘‘

روہنگیا مہاجر امان اللہ کا اصرار ہے کہ وہ صرف اقوام متحدہ کے امن دستوں کی نگرانی میں ہی وطن واپس جائے گا، ’’ انہیں ہمیں تحفظ فراہم کرنا ہو گا ورنہ یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔‘‘ کوکس بازار کے عارضی شیلٹر ہاؤسز میں مقیم روہنگیا مہاجرین کی حالت بہتر بنانے کے لیے عالمی برادری کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

بنگلہ دیش میں مون سون کا سیزن شروع ہونے والا ہے۔ بارش کی وجہ سے کوکس بازار میں مہاجرین کے لیے پلاسٹک کی شیٹوں اور بانس کے بنے گھر پانی میں بہہ سکتے ہیں۔