ہٹلر کے پیدائشی گھر پر سرکاری قبضے کے جھگڑے میں عدالتی فیصلہ
12 اپریل 2019ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں واقع اور جرمنی کے ہمسایہ یورپی ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے جمعہ بارہ اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ایک اعلیٰ عدالت نے فیصلہ سنایا ہے کہ اس درخواست دہندہ خاتون کو، جو اڈولف ہٹلر کے پیدائشی گھر کی سابقہ مالکہ ہے، اتنا زر تلافی ادا نہیں کیا جا سکتا جتنا اس نے طلب کیا ہے۔
یہ عدالتی تنازعہ جس عمارت سے متعلق ہے، اڈولف ہٹلر وہیں پر پیدا ہوا تھا۔ اس عمارت کو تین سال قبل حکومت نے اپنی ملکیت میں لے لیا تھا۔
اس پر اس عمارت کی سابقہ مالکہ نے ایک قانونی دعویٰ دائر کرتے ہوئے اپنے لیے ڈیڑھ ملین یورو کے زر تلافی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ رقم تقریباﹰ 1.7 ملین امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
یہ گھر جرمنی اور آسٹریا کے درمیان سرحد کے قریب آسٹرین قصبے براؤناؤ میں واقع ہے۔
1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے آخری دنوں میں برلن میں اپنی زیر زمین پناہ گاہ میں خود کشی کر لینے والا نازی جرمن رہنما اڈولف ہٹلر اسی گھر کے ایک فلیٹ میں 1889ء میں پیدا ہوا تھا۔
ایک شیر خوار بچے کے طور پر اپنی زندگی کے اولین مہینے ہٹلر نے اسی گھر میں گزارے تھے۔
2016ء میں آسٹرین حکومت نے اس عمارت کو یہ سوچ کر زبردستی اپنے ملکیت میں لے لیا تھا کہ وہ ہٹلر کی جائے پیدائش کے طور پر نئے نازی انتہا پسندوں کے لیے پرکشش اور ان کی توجہ کا مرکز نہ بن جائے۔ یہ گھر اپنی ابتدائی شکل میں 500 سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا، جہاں ہٹلر کی پیدائش آج سے ٹھیک 130 برس قبل ہوئی تھی۔
اس مکان پر حکومتی قبضے کے بعد ایک علاقائی عدالت نے اس سال فروری میں فیصلہ سنایا تھا کہ حکومت اس عمارت کی ملکیت کے بدلے متعلقہ خاتون کو 1.5 ملین یورو زر تلافی ادا کرے۔ لیکن جمہوریہ آسٹریا کی قانونی نمائندگی کرتے ہوئے ویانا میں ملکی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف یہ کہتے ہوئے اپیل دائر کر دی تھی کہ یہ زر تلافی بہت زیادہ تھا اور اسے کافی کم ہونا چاہیے تھا۔
اب آسٹرین صوبے لِنس کی ایک اعلیٰ علاقائی عدالت نے اپنے فیصلے میں ازالے کی ان رقوم کی مالیت تقریباﹰ نصف کر کے آٹھ لاکھ بارہ ہزار یورو کر دی ہے۔ ویانا میں ملکی وزارت داخلہ کے مطابق عدالت نے یہ فیصلہ جمعرات گیارہ اپریل کو سنایا اور اس خاتون کو 812,000 یورو کی رقم ادا بھی کر دی گئی ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق عدالت نے اپنے ایک روز پہلے سنائے گئے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ اس عمارت کی سابقہ مالکہ اور مدعیہ اگر چاہے تو وہ اس تازہ فیصلے کے خلاف ملکی سپریم کورٹ میں اپیل بھی کر سکتی ہے۔
م م / ا ا / ڈی پی اے