یروشلم سے متعلق یونیسکو کی متنازعہ قرارداد منظور
19 اکتوبر 2016اس بات کی زیادہ امید نہیں کہ یہ قرارداد بذاتِ خود یروشلم کی صورت حال پر کوئی ٹھوس اثرات مرتب کرے گی تاہم اس کی منظوری سے نہ صرف یروشلم میں بلکہ اقوام متحدہ کے سائنسی، تعلیمی اور ثقافتی ادارے یونیسکو میں داخلی سطح پر بھی سفارتی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
’مقبوضہ فلسطین‘ کے عنوان سے پیش کی جانے والی اِس قرارداد میں یروشلم میں مقدس مقامات کے تحفظ کے حوالے سے اصول بیان کرتے ہوئے مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے یکساں طور پر مقدس مقام کا صرف اس کے اسلامی نام ’بیت المقدس‘ کے ساتھ ہی ذکر کیا گیا ہے۔ اسی مقام پر مغرب کی طرف یہودیوں کے لیے مقدس ترین ’دیوار گریہ‘ بھی واقع ہے، جہاں یہودی دعائیں مانگتے اور عبادت کرتے ہیں۔
مسلمان یروشلم میں اونچائی پر بنے مقدس مقام کو ’حرم شریف‘ کہتے ہیں اور اسی کے احاطے میں مسجد اقصٰی بھی موجود ہے۔ یہودی اس مقام کو ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہودیت میں یہ ساری جگہ بہت مقدس خیال کی جاتی ہے جبکہ اسلام میں سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ کے شہروں میں دو مقدس ترین مقامات کے بعد یروشلم میں یہی جگہ تیسرے مقدس ترین مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔
یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ نے یروشلم میں مقدس مقامات کے حوالے سے یہ قرارداد اتفاق رائے سے کل بروز منگل اٹھارہ اکتوبر پیرس میں اپنے ہیڈکوارٹرز میں ہونے والے ایک اجلاس میں منظور کی تھی۔
اس قرارداد کے مسودے کی منظوری گزشتہ ہفتے ہی ایک کمیشن کی جانب سے دی گئی تھی۔ اس مسودے کی منظوری کے بعد اسرائیل نے یونیسکو کے ساتھ اپنا تعاون گزشتہ ہفتے معطل کر دیا تھا۔ یہ البتہ واضح نہیں کہ اسرائیل کی جانب سے یونیسکو سے تعاون کی معطلی کے بعد کون کون سے پروگرام متاثر ہوں گے۔
اسرائیل اور امریکا نے یونیسکو میں فلسطین کو رکنیت دیے جانے کے بعد اس ادارے کو دیے جانے والے فنڈز کی فراہمی بھی معطل کر رکھی ہے۔ یونیسکو میں اسرائیلی سفیر کارمیل ہاکوہین نے قرارداد کی منظوی کے بعد خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نہ تو مذاکرات کریں گے اور نہ ہی اس بدصورت کھیل میں حصہ لیں گے۔‘‘ ہاکوہین کا کہنا تھا کہ یونیسکو کا قابل قدر ادارہ تاریخ محفوظ کرنے کے لیے بنا تھا نہ کہ اسے از سرِ نو تحریر کرنے کے لیے۔‘‘
اس دیرینہ تنازعے کی ایک وجہ یونیسکو کے ماہرین کو اسرائیل کی جانب سے ویزے دینے سے انکار بھی ہے۔ یونیسکو کا ادارہ اپنے ماہرین کو یروشلم میں مقدس مقامات کے تحفظ کی صورت حال کا اندازہ لگانے کے لیے اسرائیل بھیجنا چاہتا تھا۔ یونیسکو میں فلسطینی سفیر الیاس صنبر نے اے پی کو بتایا کہ یونیسکو مشن کو اسرائیل جانے کی اجازت نہ دینا بہت بڑا مسئلہ تھا۔
مذکورہ قرارداد کی منظوری یونیسکو کی جانب سے کیے جانے والے ان متعدد اقدامات میں سے ایک ہے، جنہیں اسرائیلی حکومت اقوام متحدہ میں’اسرائیل دشمن تعصب‘ کے طور پر دیکھتی ہے، جہاں اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک کی تعداد عرب ممالک کی تعداد سے کہیں کم ہے۔ اس حوالے سے اسرائیل کی تشویش میں سن دو ہزار گیارہ میں اس وقت بھی اضافہ ہوا تھا، جب یونیسکو نے فلسطین کو اپنی رکنیت دے دی تھی۔