یمنی تنازعہ، قطر نے ایک ہزار فوجی روانہ کر دیے
7 ستمبر 2015جزیرہ نما عرب کے شورش زدہ ملک یمن میں پیدا مسلح تنازعے میں شریک سعودی اتحاد کی مشترکہ زمینی فوج میں قطر نے اپنے ایک ہزار فوجی شامل کر دیے ہیں۔ یمن میں حوثی شیعہ ملیشیا اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کے حامی فوجیوں پر سعودی اتحاد کے فضائی حملوں میں قطری جنگی طیارے پہلے ہی شامل ہے۔
قطر کے عسکری ذرائع نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ قطری فوجی حوثی ملیشیا کے خلاف ممکنہ زمینی کارروائی میں شریک ہونے کے لیے دوحہ سے روانہ کیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق قطری فوجیوں نے سعودی فوجی دستوں کے ہمراہ یمنی سرحد کے مقام الوادیا بارڈر پوسٹ کو عبور کر لیا ہے۔
سعودی عرب کے سیٹلائٹ ٹیلی وژن چینل العربیہ کے مطابق قطری اور سعودی فوجی یمنی سرحد کو عبور کر چکے ہیں۔ الجزیرہ ٹیلی وژن کے مطابق قطری فوجی دو سو فوجی گاڑیوں پر دارالحکومت دوحہ سے روانہ ہوئے تھے۔ ان کے ہمراہ امریکی ساختہ تیس اپاچی ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں۔ ایک سعودی اخبار الحیات کے مطابق سعودی عرب نے بھی فوج کی ایک بڑی تعداد یمن کے اندرون روانہ کی ہے اور ان میں جدید اسلحے سے لیس خصوصی دستے بھی شامل ہیں۔
الحیات اخبار کے مطابق یہ دستے یمنی مقام مارب کی جانب روانہ ہیں۔ الحیات نے یہ بھی لکھا ہے کہ صنعاء کو آزاد کروانے کے لیے فیصلہ کُن جنگ کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ ایسی اطلاعات گزشتہ ماہ آنا شروع ہو گئی تھیں کہ صنعاء پر قبضے کی جنگ ستمبر میں لڑی جائے گی۔ مبصرین کے مطابق دارالحکومت صنعاء پر بڑے حملے کی تیاریوں کے سلسلے میں فضائی حملوں کے ساتھ زمینی فوج کو بھی متحرک کرنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے۔
عسکری تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صنعاء پر قبضے کا عمل مارب کے مقام سے شروع ہو سکتا ہے کیونکہ مارب علاقے کے قبائلی سردار مسلسل حوثی شیعہ ملیشیا کے لیے سر درد بنے ہوئے ہیں۔ ان سرداروں کے مسلح ساتھی مسلسل شیعہ ملیشیا اور صالح کے حامی فوجی دستوں پر گھات لگا کر شب خون مارنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہی کے حملوں سے سعودی عرب کی یمنی مزاحمتی دستوں کے لیے سپلائی لائن بحال ہے۔ قطری دارالحکومت دوحہ میں قائم برُوکنگز سینٹر کے سینیئر سیاسی تجزیہ کار ابراہیم فرحت کا کہنا ہے کہ سیاسی مفاہمت کے بغیر صنعاء کی جنگ طویل، خون ریز اور تھکا دینے والی ہو گی۔