یمن : بھوک کے ڈیرے، جنگ سے برسوں کی محنت برباد، انٹرویو
31 جنوری 2017نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ اپنے اس انٹرویو میں میریسیل ریلانو نے منگل اکتیس جنوری کو بتایا کہ صحتِ عامہ کے شعبے میں گزشتہ ایک عشرے کے دوران یمن میں جو بھی پیشرفت ہوئی تھی، وہ جنگ اور اقتصادی بحران کے باعث تباہ ہو گئی ہے۔
یونیسیف کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق جزیرہ نما عرب کے اس غریب ترین ملک میں آج کل 3.3 ملین انسان شدید کم خوراکی کا شکار ہیں، جن میں سے 2.2 ملین بچے ہیں۔ مزید یہ کہ پانچ سال سے کم عمر کے چار لاکھ ساٹھ ہزار بچے خوراک کی انتہائی شدید قلت کا شکار ہیں۔
خوراک کی شدید قلت کے باعث یمنی بچے اسہال اور سانس کی نالی میں انفیکشن کی ایسی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں، جن سے اُن کی جانوں کو خطرہ لاحق ہے۔ جنیوا میں روئٹرز کے ساتھ اپنے خصوصی انٹرویو میں میریسیل ریلانو نے کہا: ’’خوراک کی انتہائی شدید قلت ہمیں پریشان کر رہی ہے کیونکہ اس سے بچے موت کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘
میریسیل ریلانو نے بتایا: ’’صحت عامہ کے شعبے کی ابتر حالت، تنازعے اور اقتصادی بحران نے ہمیں دَس سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ صحت کے شعبے میں کامیابیوں کا ایک پورا عشرہ برباد ہو گیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ آج کل ہر ایک ہزار زندہ پیدا ہونے والے بچوں میں سے تریسٹھ اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے پہلے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ 2014ء میں یہ تعداد تریپن تھی۔
اس خصوصی انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ خوراک کی شدید قلت سب سے زیادہ شمالی صوبے سعدہ، حدیدہ کے ساحلی علاقے اور جنوب میں تعز کے بچوں، حاملہ خواتین اور اُن خواتین کو متاثر کر رہی ہے، جو بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔
ریلانو کے مطابق یونیسیف کی موبائل ٹیمیں رواں سال اور زیادہ بچوں کا معائنہ کریں گی اور کم خوراکی کے شکار تین لاکھ تئیس ہزار بچوں تک پہنچیں گی۔ اُنہوں نے کہا کہ گزشتہ سال یہ تعداد دو لاکھ سینتیس ہزار تھی اور یہ کہ اس سال کچھ ساتھی ادارے بھی اس کام میں مدد دیں گے۔
یمنی تنازعے میں سعودی عرب کی قیادت میں اتحادی افواج حوثی باغیوں کے خلاف برسرِپیکار ہیں، جنہیں ایران کی حمایت حاصل ہے۔ اس تنازعے نے یمن کی اٹھائیس ملین کی آبادی کو خوراک کے بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ سات لاکھ یمنی باشندے بھوک کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن کے پاس آج کل جتنی گندم ہے، وہ زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک کے لیے کافی ہو گی اور یہ کہ مرکزی بینک کے بحران کے باعث بیرونی دنیا سے خوراک کی درآمدات کم ہو رہی ہیں، جس سے بھوک کا بحران مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
ریلانو کے مطابق یونیسیف نے انتہائی شدید کم خوراکی کے شکار بچوں تک توانائی سے بھرپور غذا پہنچانے کے سلسلے میں کافی پیشرفت کی ہے اور رواں سال کے لیے پچاس فیصد سپلائی کو یقینی بنایا جا چکا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ یونیسیف کو اس سال یمن کے لیے مجموعی طور پر 236.5 ملین ڈالر درکار ہیں۔