یمن: معاہدے کی کوشش ایک بار پھر ناکام
19 مئی 2011امید کی جار ہی تھی کہ صدر عبداللہ صالح خلیجی ممالک کے پیش کردہ انتقال اقتدار کے فارمولے پر متفق ہو جائیں گے، تاہم فی الحال یہ امید ماند پڑ گئی ہے۔
عرب ممالک میں لمبے عرصے سے برسرِ اقتدار حکمرانوں سے نجات پانے اور جمہوری اصلاحات کے لیے جدوجہد سے متاثر ہوکر یمن کے عوام بھی صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ علی عبداللہ صالح پچھلے 33 برس سے اقتدار میں ہیں۔ کئی ماہ سے جاری عوامی جدوجہد کے دوران مظاہرین کو ریاستی فورسز کی طرف سے سختیوں اور تشدد کا بھی سامنا ہے۔ احتجاجی مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ 69 سالہ صدر صالح فوری طور پر اقتدار سے علیحدہ ہوجائیں۔ اس کے علاوہ امریکہ سمیت عالمی برادری کی طرف سے بھی صدر صالح پر اقتدار چھوڑنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
یمن میں جاری بحران کے تناظر میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ القاعدہ کا مقامی ونگ ملکی خلفشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید طاقتور ہوسکتا ہے۔ انہی خدشات کے پیش نظر مغربی اور خلیجی طاقتوں کی طرف سے بحران کے خاتمے کے لیے ایک معاہدے پر فریقین کو متفق کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔ اس معاہدے کے مطابق جسے ’گلف پلان‘ کا نام دیا گیا ہے، صدر علی عبداللہ صالح ایک ماہ کے اندر اپنے عہدے سے استعفٰی دے دیں گے۔
مجوزہ معاہدے کے مطابق صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی، مزید یہ کہ انہیں باعزت طور پر اقتدار سے علیحدگی کا موقع دیا جائے گا۔ امید کی جارہی تھی کہ اس معاہدے پر بدھ کے روز دستخط ہوجائیں گے۔ تاہم اس معاہدے پر دستخطوں کی راہ میں یہ معاملہ رکاوٹ بن گیا کہ اپوزیشن کی طرف سے اس پر دستخط کون کرے گا۔ اس تنازعے کے باعث معاہدے کے لیے کوشاں خلیجی ممالک بلاک کے سربراہ احتجاجاﹰ صنعاء چھوڑ کر واپس چلے گئے۔
یمنی حکومت کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ یہ معاہدہ ابھی بھی ممکن ہے، ’ابھی بھی امید کی کرن باقی ہے‘۔ تاہم اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ مذاکراتی عمل کب بحال ہوگا۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے بھی صدر علی عبداللہ صالح پر اقتدار سے علیحدگی کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما کے ایک مشیر جان برینن کے مطابق انتقال اقتدار کے لیے پیش کیا گیا معاہدہ یمن کی تعمیر وترقی اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بہترین حل ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک