یمن میں تیل کا بحران بڑھتا ہوا
5 مئی 2011یمن میں ایک طرف صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف عوامی مظاہرے تشویشناک حد تک ملکی سیاسی استحکام پر منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث بنے ہیں۔ دوسری جانب ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے خام تیل کی برآمدات کو پہنچنے والے نقصانات کے نتائج بہت دور رس ہو سکتے ہیں۔
ابھی دو روز قبل ہی ملک کے تمام بڑے شہروں کے پٹرول پمپوں پر ڈیزل ختم ہو جانے کے سبب ٹرکوں اور بسوں کے ڈرائیوروں کو سخت مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ ساتھ ہی پٹرول کی راشننگ بھی شروع ہو گئی ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق ڈیزل اور پٹرول کے حصول کے لیے پٹرول پمپوں پر بسوں اور گاڑیوں کی کئی کئی میل لمبی قطاریں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
صنعاء شہر کا ایک ٹیکسی ڈرائیور علی محسن اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے’میں صبح چھ بجے سے یہاں کھڑا انتظار کر رہا تھا، 20 لٹر تیل کے لیے میں نے گھنٹوں انتظار کیا، جب میری باری آئی تو پٹرول پمپ کے کارکن نے کہہ دیا کہ تیل ختم ہو چکا ہے‘۔
یمن میں تیل کی قلت صدر صالح کے لیے ایک اضافی مسئلہ بن گیا ہے۔ ان کے 32 سالہ دور حکومت کے خلاف ملک گیر سطح پر ہونے والے احتجاج اور مظاہروں ہی سے نمٹنا اُن کے لیے آسان نہیں ہے۔
صدر صالح کو حالیہ سیاسی بحران اور ملک میں اُن کی حکومت کے خلاف ہونے والے پُر تشدد مظاہروں سے پہلے بھی گوناگوں مسائل کا سامنا رہا ہے۔ قدیم قبائلی نظام کے تحت قائم اس معاشرے میں اب بھی دھڑے بندی اور گروہ بندی کی جڑیں گہری دکھائی دیتی ہیں۔ ایک طرف شمال اور جنوبی علاقوں میں آئے دن باغیوں کے مابین جھگڑے ہوتے رہتے ہیں، تو دوسری جانب یمن کے کوہستانی علاقوں میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ نے بھی اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں، جو وقتاً فوقتاً یمن کے پہاڑی صوبوں میں امن و امان کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
یمن سے یومیہ ایک لاکھ پانچ ہزار بیرل تیل کی برآمدات ہوتی ہیں، جو نہایت معمولی مقدار ہے۔ صنعاء حکومت اپنے سرکاری کاموں اور فوج اور سول ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے تیل کی برآمدات سے ہونے والی آمدنی ہی پرانحصار کرتی ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک