یمن میں صومالی مہاجرین کی حالت زار
12 جون 2009بات ہے 1992 کی جب فاطمہ عبداللہ محمود صومالیہ میں خانہ جنگی سے تنگ آکر یمن آئی تھیں۔ یہ سوچ کر کہ چند ہی مہینوں کے بعد وہ اپنے وطن واپس جاسکے گی لیکن سترہ سال گزر جانے کے باوجود وہ آج بھی یمن کے علاقے باساتین میں قائم ایک مہاجر کیمپ میں ہیں۔
فاطمہ یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ صومالیہ میں فوج اور مسلم عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں شدت آ چکی ہے۔ فاطمہ کہتی ہیں: ’’جب میں اپنے بچّوں کو صومالیہ کے حالات کے بارے میں بتاتی ہوں تو وہ ڈر جاتے ہیں۔‘‘
فاطمہ کی داستان دیگر صومالی مہاجرین کی طرح ہی دردناک ہے۔ یمن کے ایک مشرقی علاقے میں گزشتہ شال سیلاب آنے کے باعث فاطمہ کو ساحلی شہر باسا تین کا رُخ کرنا پڑا تھا۔
محتاط اندازوں کے مطابق باساتین کی آبادی چالیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے جس میں چودہ تا سترہ ہزار کے قریب صومالی پناہ گزین ہیں۔ اسی لئے باساتین کو’’چھوٹا صومالیہ‘‘ کے نام سے بھی جانا پہچانا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین UNHCR کے مطابق یمن میں صومالی پناہ گزینیوں کی مجموعی تعداد 142,000 ہے تاہم یمنی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے۔ غیر سرکاری طور پر یمن میں صومالی مہاجرین کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے تاہم اس سلسلے میں حقائق اور شواہد موجود نہیں ہیں۔
صومالیہ کے کشیدہ حالات سے تنگ آکر نقل مکانی کرنے والے شہری صرف یمن کا ہی رُخ نہیں کرتے بلکہ وہ سعودی عرب اور دیگر عرب ملکوں میں بھی داخل ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر بغیر سرحد نامی بین الاقوامی ادارے کے مطابق صومالی باشندوں کو یمن میں مہاجرین کا سٹیٹس حاصل کرنے کے لئے کوئی درخواست نہیں دینا پڑتی ہے تاہم اس سلسلے میں ایتھیوپیا اور دیگر پناہ گزینوں کے لئے قانون مختلف ہے۔ غیر یمنی باشندوں کو دس روز کے اندر اندر درخواست دینا پڑتی ہے۔
ایسی افواہیں گردش میں ہیں کہ انتہائی ابتر اقتصادی صورتحال کے باعث یمن حکومت صومالی مہاجرین کے ساتھ خصوصی برتاؤ قائم نہیں رکھ سکے گی۔ یمن میں بیروزگاری کی شرح چالیسس فیصد تک بڑھ جانے کی وجہ سے مہاجرین کے لئے سہولیات ناکافی ہوچکی ہیں۔
رپورٹ : عروج رضا
ادارت : گوہر نذیرگیلانی