1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن میں پانچ ہزار سے زائد ہلاکتیں

عاطف توقیر روئٹرز
11 ستمبر 2017

اقوام متحدہ کے مطابق یمنی تنازعے میں ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جس میں زیادہ تعداد سعودی قیادت میں عرب اتحاد کے طیاروں کی بمباری کی وجہ سے ہلاک ہونے والے شہریوں کی ہے۔

https://p.dw.com/p/2jj87
Jemen Luftschlag bei Sanaa
تصویر: Reuters/K. Abdullah

پیر کے روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ زید رعد الحسین نے بتایا کہ یمنی تنازعے میں ہلاک ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد پانچ ہزار ایک سو چوالیس ہو چکی ہے، جس میں سے زیادہ تر سعودی قیادت میں عرب اتحادی طیاروں کی بمباری کی وجہ سے مارے گئے۔ رعد الحسین نے اس بابت بین الاقوامی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔

یمن میں ’ظلم و ستم‘ کی چھان بین اقوام متحدہ کرے، رعد الحسین

سعودی عرب یمن میں دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے، ایران

 

’عورت کی مشقت کی نہ اُجرت نہ ہی گنتی‘

 

جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے رعد الحسین نے کہا، ’’اس تنازعے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شدت جس قدر شدید ہے، اس کے مقابلے میں احتساب اور جواب دہی کی بابت کوششیں انتہائی کم سطح کی رہی ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’یمن کی تباہی اور وہاں کے لوگوں کی مصیبتوں اور پریشانیوں کی صورت حال خوف ناک ہے اور اس کے اثرات پورے خطے پر پڑ رہے ہیں۔‘‘

یہ تیسرا موقع ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ رعد الحسین نے بین الاقوامی برادری سے یمنی تنازعے کی بابت بین الاقوامی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔ یمن میں شیعہ حوثی باغیوں کو ایرانی حمایت حاصل ہے، جب کہ صدر منصور ہادی کی فورسز کو سعودی قیادت میں عرب اتحادی کی فضائی مدد دستیاب ہے۔

گزشتہ ہفتے رعدالحسین کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ 47 رکنی انسانی حقوق کی کونسل اپنی زمہ داریاں سنجیدگی سے نہیں نبھا رہی ہے۔

Jemen Cholera-Ausbruch
یمن میں لاکھوں افراد اس خانہ جنگی سے متاثر ہوئے ہیںتصویر: Reuters/K. Abdullah

اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں جاری خانہ جنگی اس وقت دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران ہے، کیوں کہ اس بحران کی وجہ سے لاکھوں افراد قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں، جب کہ یمنی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ اسی دوران رواں برس یمن میں ہیضے کی وبا سے ساڑھے چھ لاکھ افراد متاثر ہوئے، جس کی بنیادی وجہ پینے کی صاف پانی کی عدم دستیابی تھی۔