یمن میں 11 ہزار بچے ہلاک یا زخمی ہوئے، اقوام متحدہ
13 دسمبر 2022یمن کی سعودی حمایت یافتہ حکومت اور ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ دو اکتوبر کو ختم ہو گیا تھا۔ اب اقوام متحدہ کا ادارہ جنگ بندی کے ایک نئے معاہدے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن موجودہ کشیدہ صورت حال کے باعث یمن کا انسانی المیہ بڑھتا جا رہا ہے۔
اس موقع پر بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رُسل نے کہا ہے کہ سن 2015ء سے اب تک 11 ہزار لڑکے اور لڑکیاں ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ کیتھرین رُسل کا مزید کہنا تھا، ''جنگ بندی کی فوری تجدید پہلا مثبت قدم ہو گا اور اس طرح متاثرہ افراد تک براہ راست رسائی حاصل ہو سکے گی‘‘۔
تاہم یونیسیف کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے بچوں کی اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیوں کہ جو تعداد بیان کی گئی ہے، یہ وہ تعداد ہے، جس کی تصدیق اقوام متحدہ نے خود کی ہے جبکہ ایسی کئی ہلاکتوں کے بارے میں کوئی اطلاع ہی سامنے نہیں آتی۔
جنگ بندی کے باوجود ہلاکتیں
رواں برس اپریل میں یمن کے متحارب دھڑوں کے مابین جنگ بندی کا ایک معاہدہ طے پا گیا تھا۔ عالمی سطح پر اس معاہدے کو سراہا گیا تھا لیکن اس کے باوجود جولائی سے ستمبر تک 164 افراد ہلاک یا زخمی ہوئے جن میں کم از کم 74 بچے بھی شامل تھے۔ زیادہ تر ہلاکتیں بارودی سرنگوں کی وجہ سے ہوئیں۔
یمن کو کئی ملین ڈالر امداد کی ضرورت
یونیسف نے گزشتہ ہفتے دنیا کے امیر ممالک سے اپیل کی تھی کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سال دو ہزار تئیس کے لیے 10 ارب سے زائد ڈالر کی امداد فراہم کریں تاکہ دنیا بھر کے جنگ زدہ علاقوں میں موجود بچوں کی مدد کی جا سکے۔ اسی طرح یمن کے لیے 484 ملین ڈالر کی امداد جمع کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔
کیتھرین رُسل کا کہنا تھا، ''ہزاروں بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور بچ جانے والے لاکھوں بچوں کو بیماریوں یا بھوک سے موت کا خطرہ لاحق ہے‘‘۔
یونیسیف کے اندازوں کے مطابق یمن میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً پانچ لاکھ چالیس ہزار بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اس ایجنسی کے مطابق تقریبا 18 ملین یمنی شہریوں کو پینے کے صاف پانی اور حفظان صحت کی سہولتوں تک رسائی میسر نہیں ہے۔
ا ا / ر ب (روئٹرز، اے ایف پی)