یمن کے مسائل کا حل اصلاحات اور ترقی
28 جنوری 2010اس کے برعکس یمن کو درپیش موجودہ مسائل کا دیرپا حل اتنا کثیر الجہتی اور متنوع ہونا چاہیے کہ اس کے ساتھ اس ملک میں غربت، جرائم اور عدم استحکام کا بھی کامیابی سے مقابلہ کیا جا سکے۔ ہلیری کلنٹن نے بدھ کی شام لندن میں کہا کہ یمن میں اس عدم استحکام کا خاتمہ امریکہ کی قومی سلامتی کی ترجیحات میں شامل ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے اپنے یمنی اور برطانوی ہم منصب وزراء کے ساتھ مل کر کہا کہ یمن کی کل آبادی قریب 23 ملین ہے، لیکن اس کا نصف حصہ روزانہ دو امریکی ڈالر سے بھی کم آمدنی پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔ ایسے میں صنعاء حکومت کے پاس اب اصلاحات کا ایک باقاعدہ ایجنڈا بھی ہے اور ایک اقتصادی پلان بھی۔ اسے اس پلان پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ بین الاقوامی برادری اس امر پر خاموش تماشائی نہیں بنی رہے گی کہ یمن زیادہ سے زیادہ لاقانونیت کا شکار ہوتا جائے۔
برطانوی دارالحکومت میں قریب دو گھنٹے تک جاری رہنے والی اس یمن کانفرنس میں خلیج کی عرب ریاستوں کے وزراء بھی شامل ہوئے۔ اس کانفرنس میں خود یمن نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ صنعاء حکومت نہ صرف ملک میں وسیع تر سیاسی اصلاحات شروع کرے گی بلکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ملکی معیشت میں بہتری کے ایک جامع پروگرام کے بارے میں بھی بات چیت کی جائے گی۔
اس موقع پر برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا کہ یمن کے مسائل کے حل کی جنگ سلامتی کے خطرات کے مقابلے اور انسداد دہشت گردی کی نتیجہ خیز کوششوں کے بغیر نہ تو شروع ہو سکتی ہے اور نہ ہی ختم۔
گزشتہ برس دسمبر میں ڈیٹرائٹ کے ناکام حملے سے متعلق ان حقائق کے سامنےآنے کے بعد کہ اس حملے کے ملزم کے یمن میں القاعدہ کے ساتھ گہرے رابطے تھے، برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے اس کانفرنس کے انعقاد کی تجویز اس لئے پیش کی تھی کہ یمن میں القاعدہ کی ذیلی تنظیم کی سرگرمیوں اور وہاں داخلی سلامتی کی ابتر صورت حال کو ایک علاقائی خطرہ بننے سے روکا جا سکے۔ خاص طور پر اس تناظر میں کہ یمن میں موجودہ حالات کی وجہ سے اس کے ہمسایہ ملک سعودی عرب کو اپنی سرحدوں پر کئی طرح کے خطرات کا سامنا ہے۔ یمن کے بارے میں لندن منعقدہ اجلاس کے بعد اسی طرح کی ایک اور کانفرنس فروری کے آخر میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہو گی۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امجد علی