یورپی کمیشن کی صدارت: باروسو کے دوبارہ انتخاب کی تیاریاں
18 جون 2009اجلاس میں باروسو آئندہ پانچ سالوں کے لئے یورپی کمیشن کا لائحہ عمل پیش کریں گے جس کے بعد 27 ممالک پر مشتمل یورپی یونین کے رہنما اس دو روزہ اجلاس میں ان کے لائحہ عمل پر تبادلہِ خیال کریں گے اور اس بنیاد پر ان کی دوسری مدت ِ صدارت کے لئے حمایت یا مخالفت کا فیصلہ کریں گے۔
تاہم یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے بہت سے رہنما پہلے ہی باروسو کی صدارتی عہدے کے لئے دوبارہ امیدواری کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں۔
دوسری جانب یوزے مانوئل باروسو کو اپنی عالمی مالیاتی بحران کے تدارک کے حوالے سے ترتیب دی گئی پالیسیوں پر بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کے باوجود کسی بڑے مخالف امیدوار کے ساتھ مقابلے کا سامنا نہیں ہے۔
پرتگال سے تعلق رکھنے والے باروسو کے حمایتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اپنی پہلی مدتِ صدارت میں باروسو یورپی حکومتوں کو یورپی یونین کے مشترکہ مفاد کے لئے پالیسی اختیار کرنے پر قائل کرنے میں کامیاب رہے۔
اصل مشکل یورپی یونین میں اصلاحات کا لزبن معاہدہ ہے جس کی بعض یورپی ممالک کی طرف سے توثیق ہونا ابھی باقی ہے۔ اگر اس سال کے آخر تک لزبن معاہدے کی توثیق مکمل ہو جاتی ہے تو یورپی یونین کے موجودہ صدر ملک چیک جمہوریہ کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ یونین کے رہنماؤں سے باروسو کو واضح اکثریت دلوائیں۔ اگر اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہو جاتا ہے تو یورپی پارلیمان 15 جولائی کے اجلاس میں باروسو کو ایک بار پھر یورپی کمیشن کا صدر منتخب کرلے گی۔
ماضی میں پرتگال کے وزیر اعظم رہ چکنے والے یوزے مانوئل باروسو کو فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی حمایت بھی حاصل ہے۔ حال ہی میں یورپی پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنے والے یورپی قدامت پسند سیاسی جماعتوں کے دھڑے یورپیئن پیپلز پارٹی کی حمایت بھی باروسو کو حاصل ہے۔ اس صورت میں باروسو کا کمیشن کا صدر منتخب ہونا تو طے ہے تاہم لزبن معاہدے کی تمام رکن ممالک سے توثیق کے بعد اس کا یورپی یونین کی پارلیمان کی جانب سے واضح اکثریت سے منظور ہونا ضروری ہوگا۔ اس کے لئے باروسو کو واضح اکثریت سے منتخب کروانا بھی ضروری ہوگا۔
آئرلینڈ میں گزشتہ برس لزبن معاہدے پر ایک عوامی ریفرینڈم کروایا گیا تھا جس میں آئرش عوام کی اکثریت نے اس معاہدے کو منظور کرنے کے بجائے مسترد کردیا تھا۔ تاہم رواں برس ستمبر یا اکتوبر میں آئرلینڈ میں اسی یورپی معاہدے کی منظوری کے لئے دوبارہ ایک ریفرینڈم کروایا جا ئے گا۔ امید کی جا رہی ہے کہ آئرلینڈ کے عوام کی اکثریت اس بار اس معاہدے کی منظوری دے دے گی۔