یورپی یونین سے اخراج برطانیہ کا، بےتحاشا مالی بوجھ جرمنی پر
27 دسمبر 2018نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی جمعرات ستائیس دسمبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جرمنی سے تعلق رکھنے والے یورپی یونین کے بجٹ سے متعلقہ امور کے نگران کمشنر گُنٹر اوئٹنگر نے یہ تنبیہ جرمنی ہی کے فُنکے میڈیا گروپ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی۔
گنٹر اوئٹنگر کے مطابق اگر برطانیہ نے یورپی یونین کے ایک رکن ملک کے طور پر بریگزٹ تک اور اس کے فوری بعد کے عرصے میں اپنے جملہ حقوق و فرائض پورے نہ کیے، تو جرمنی کو سینکڑوں ملین یورو کا اضافی مالیاتی بوجھ برداشت کرنا ہو گا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (CDU) کے سیاستدان اوئٹنگر نے تاہم یہ بھی کہا کہ یہ بات ابھی حتمی نہیں کہ برطانیہ کی رکنیت کا خاتمہ ’ہارڈ بریگزٹ‘ سے ہی ہو گا۔ ان کے بقول اب بھی ممکن ہے کہ برسلز اور لندن کے مابین بریگزٹ کے باقاعدہ معاہدے کی فریقین کی طرف سے پارلیمانی توثیق بھی کر دی جائے۔ گنٹر اوئٹنگر کے بقول یونین کے مالی سال 2019ء کے لیے جس بجٹ منصوبے کی منظوری دی جا چکی ہے، لندن حکومت کو اس کے حوالے سے خود پر عائد ہونے والی جملہ مالیاتی ذمے داریاں پورا کرنا ہوں گی۔ ’’اگر لندن نے بریگزٹ کو بنیاد بنا کر ایسا کرنے سے انکار کر دیا، تو صرف اس وجہ سے جرمنی پر پڑنے والا اضافی مالیاتی بوجھ سینکڑوں ملین یورو تک ہو سکتا ہے۔‘‘
برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین بریگزٹ مذاکرات کے نتائج کی عملی صورت حال اس وقت یہ ہے کہ لندن اور برسلز کے مابین ایک معاہدہ طے تو پا چکا ہے تاہم برطانوی پارلیمان کی طرف سے اس معاہدے کی توثیق ابھی باقی ہے۔
وزیر اعظم ٹریزا مے نے اسی مہینے اس معاہدے کی منظوری کے لیے برطانوی پارلیمان میں مجوزہ رائے شماری اس لیے مؤخر کر دی تھی کہ انہیں خدشہ تھا کہ شاید یہ معاہدہ منظور نہ ہو سکے۔ اب اس معاہدے پر ہاؤس آف کامنز میں رائے شماری جنوری کے وسط میں ہو گی۔
برطانیہ نے اپنا بریگزٹ کا فیصلہ ایک عوامی ریفرنڈم کی صورت میں کیا تھا اور طے شدہ پروگرام کے مطابق اگلے سال مارچ کے آخر تک برطانیہ عملی طور پر یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ گنٹر اوئٹنگر نے امید ظاہر کی کہ برطانوی پارلیمان یورپی یونین کے ساتھ اس معاہدے کی منظوری دے ہی دے گی۔
م م / ع ا / ڈی پی اے