یورپی یونین کے رہنما بیلاروس پر پابندی عائد کرنے پر رضامند
2 اکتوبر 2020ایک ہفتے کے تعطل کے بعد، یورپی یونین کے رہنما جمعے کے روز بیلا روس کے حکام کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پر متفق ہوگئے، اس کے ساتھ ہی ترکی کو ایک سخت پیغام دینے کے حوالے سے قبرص کے ساتھ جاری سفارتی تعطل بھی ختم ہوگیا۔
یورپی یونین کی طرف سے بیلاروس کے جن 40 سینیئر افسران کے خلاف پابندیاں عائد کی گئی ہیں، ان پر صدارتی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لینے اور 9 اگست کو ہونے والے انتخابات کے بعد پرامن مظاہرین کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائدکیے گئے ہیں۔
یورپی کونسل کا موقف
برسلز میں یورپی یونین کے رہنماؤں کی ایک اہم میٹنگ کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے یورپی کونسل کے صدر شارل مِشیل نے کہا، ”ہم نے آج پابندیاں نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم نے ایک ہفتہ پہلے جو فیصلہ کیا تھا اس کے لحاظ سے یہ بہت اہم ہے، تاکہ یہ اشارہ دیا جاسکے کہ ہم اس معاملے میں معتبر ہیں۔"
بیلاروس کے صدر الیکسانڈر لوکاشینکو کا نام ان افراد کی فہرست میں شامل نہیں ہے، جن پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ تاہم شارل مِشیل نے کہا کہ یورپی یونین '’صورت حال پر نگاہ رکھے گی" اور ضرورت پڑنے پر تبدیلیاں کی جائیں گی۔ ان پابندیوں میں متعلقہ افسران کے اثاثے منجمدکرنا اور ان پر سفری پابندیاں شامل ہیں۔
بیلار وس کے حکام کے خلاف پابندیوں کے حوالے سے اگست میں ہی اتفاق ہوگیا تھا تاہم قبرص کا کہنا تھا کہ یورپی یونین پہلے ترکی کی گیس کی تلاش کی سرگرمیوں کے خلاف سخت موقف کا اعلان کرے، جس کی وجہ سے پابندی عائد کرنے کا معاملہ تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔
حالانکہ دونوں معاملات کا ایک دوسرے سے براہراست کوئی تعلق نہیں لیکن قبرص کی دلیل تھی کہ یورپی یونین کو بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کے متعلق واضح رویہ اپنانا چاہیے۔
اس پابندی سے بہت اہم اشارہ جائے گا:میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بیلاروس پر پابندی پر اتفاق رائے اور ترکی سے متعلق یورپی یونین کے موقف کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ایک 'اہم پیش رفت‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ یورپی رہنماؤں نے جمعرات کو شروع ہونے والے اور جمعے کی صبح تک چلنے والی طویل بات چیت کے دوران کافی”تفصیلی اور بعض اوقات سخت گفتگو" کی لیکن ہم سب بالآخر ایک نتیجے پر پہنچ گئے۔
جرمن رہنما کا کہنا تھا کہ لوکاشینکو کے حامیوں کے خلاف پابندی کا فیصلے سے'ایک بہت اہم اشارہ‘ ملے گا۔
متنازعہ انتخابات
بیلاروس میں 9 اگست کو ہونے والے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد سے تقریباً روزانہ مظاہرے ہورہے ہیں اور پولیس مظاہرین کے خلاف پرتشدد کارروائی کر رہی ہے۔ یورپی یونین کے تمام 27 رکن ممالک نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا ہے اور از سر نو انتخابات پر زور دیا جا رہا ہے۔
لوکاشینکو کی مخالفت کیوں؟
صدر الیکسانڈر لوکاشینکو سن 1994 سے اس سابق سوویت ریاست کے حاکم رہے ہیں اور ان 26 برسوں میں صدر لوکاشینکو چھ بار انتخابات میں اپنے مخالفین کا تقریباً مکمل صفایا کرتے ہوئے کامیاب ہوتے آئے ہیں۔ اس بار 9 اگست کے انتخابات میں بھی سرکاری نتائج کے مطابق انہیں80.1 فیصد ووٹ ملے جبکہ ان کی مد مقابل خاتون امیدوار سویٹلانا ٹیخانوسکایا کے حق میں صرف 10.12 فیصد ووٹ پڑے۔
کینیڈا اور برطانیہ پہلے ہی بیلاروس کے خلاف اپنے طور پر کارروائی کرچکے ہیں تاہم قبرص کے ساتھ سفارتی تعطل کے سبب یورپی یونین پابندیوں کا اعلان نہیں کر سکی تھی، جس کی وجہ سے یورپی اتحاد کی ساکھ خراب ہو رہی تھی۔
ج ا/ ع ا (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)