یورپی یونین: IMF کے لیے مالی وسائل کا ہدف پورا نہ ہوا
20 دسمبر 2011اُنہوں نے یہ بات پیر اُنیس دسمبر کو رات دیر گئے بتائی۔ یورپی کرنسی یورو مسلسل دباؤ میں ہے اور یورپی ممالک اِس کرنسی کو درپیش مسائل اور اپنے قرضوں کے سنگین بحران سے نمٹنے کے لیے دن رات کوششوں میں مصروف ہیں۔ 9 دسمبر کو منعقدہ یورپی یونین سربراہ کانفرنس میں ایک فیصلہ یہ بھی کیا گیا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کو بحران زدہ یورپی ملکوں کی مدد کے لیے قرضوں کی صورت میں مالی وسائل سے لیس کیا جائے گا۔
پیر کی ٹیلی فون کانفرنس کے نتائج واضح کرتے ہیں کہ 9 دسمبر کی سربراہ کانفرنس میں طے کردہ ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔ برطانیہ نے اس مَد میں کوئی رقم دینے سے انکار کرتے ہوئے اس مہینے دوسری مرتبہ اپنے یورپی ساتھیوں کو پریشانی کی حالت میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ برطانیہ کے حصے میں تقریباً 30 ارب یورو آنا تھے تاہم اب برطانیہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اِس رقم کے سلسلے میں کوئی فیصلہ کہیں آئندہ برس گروپ جی ٹوئنٹی کے دائرے ہی میں کرے گا۔
پیر کو ہونے والے اتفاقِ رائے کے مطابق یورو زون کے تمام سترہ رکن ممالک آئی ایم ایف کو 150 ارب یورو فراہم کریں گے، جن میں سے اکٹھے 45 ارب یورو جرمنی دے گا۔ فرانس 31.4 ارب، اٹلی 23.48 ارب، اسپین 14.86 ارب، ہالینڈ 13.86 ارب جبکہ بیلجیم 9.99 ارب یورو فراہم کرے گا۔
سویڈن، ڈنمارک، پولینڈ اور چیک ری پبلک میں یورو کرنسی رائج نہیں تاہم ان ملکوں نے بھی رقم دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یورپی یونین نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو مزید مالی وسائل سے لیس کرنے میں مدد کے لیے امریکہ، روس اور جاپان جیسے دیگر امیر ملکوں سے بھی اپیل کی ہے اور اس سلسلے میں اُس کی نظریں چین، برازیل اور بھارت جیسے ملکوں کی طرف بھی اُٹھ رہی ہیں۔
یورپی یونین کے حالات پر بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں کی بھی کڑی نظر ہے اور ایک بڑی ایجنسی فِچ کی جانب سے اس انتباہ کے بعد تو یورپی ملکوں پر دباؤ میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے کہ درپیش بحران کا کوئی با معنی حل غالباً یورپی یونین کی پہنچ ہی سے باہر ہے۔
آج کل آئی ایم ایف کے اُس فنڈ کا مالیاتی حجم 300 ارب یورو سے کم ہے، جس سے اپنے ہاں اقتصادی اصلاحات متعارف کروانے والے ضرورت مند ملکوں کی مدد کی جاتی ہے۔
منگل کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لاگارد نے کہا ہے کہ عالمی معیشت ایک ’بہت ہی خطرناک موڑ‘ پر پہنچ چکی ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عابد حسین