1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرت

یورپ آنے والے تارکین وطن ميں پھراضافہ

16 جون 2020

کورونا کی پابندیاں ختم ہوتے ساتھ ہی پناہ کے متلاشی افراد کی ایک بڑی تعداد پھر سے یورپی ممالک کی طرف بڑھ رہی ہے۔ 

https://p.dw.com/p/3drnf
تصویر: Imago Images/Depo Photos/E. Corut

اپریل میں لاک ڈاؤن اور سرحدی بندش کے نتیجے میں پناہ کے متلاشی افراد کی ٹریفک میں کمی واقع ہوئی تھی۔ لیکن یورپی بارڈر ایجنسی فرنٹیکس نے گزشتہ ماہ مئی میں یورپی یونین میں داخلے کے رجحان ميں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔

جرمن میڈیا نے فونٹیکس کے اعدادوشمار کے حوالے سے کہا ہے کہ مئی میں تقریبا 4300 افراد نے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کی۔  یہ تعداد اپریل کے مقابلے ميں تین گنا زیادہ ہے۔

یورپی یونین کی سیاسی پناہ سے متعلق ایجنسی نے پہلے ہی متنبہ کیا تھا کہ کورونا کی وبا مستقبل میں مزید مہاجرین کو جنم دے سکتی ہے، خاص طور پر اگر کورونا کی وبا سے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں غذائی قلت اور زیادہ بدامنی پیدا ہوئی تو مہاجرين کا بحران بھی شدت اختیار کر جائے گا۔

Seenotrettung Mittelmeer
تصویر: AFP/P. Barrena

حکام نے گذشتہ ماہ ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ کورونا وبا کے اثرات مستقبل میں ہجرت کے رجحانات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اگر ترکی نے پہلے کی طرح یورپ کے لیے جانے والے مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیں تو یونان اور ترکی کی سرحد پر پھر ایک بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ 

اُس وقت ترکی کے صدر رجب طیب اردوآن نے یورپی بلاک کے ساتھ متعدد معاملات ميں نااتفاقی کے سبب یورپ کے ساتھ اپنے ملک کی سرحدیں کھول دی تھیں، جس کے بعد یونانی سرحد پر مہاجرین کا سیلاب امڈ آیا تھا۔

فرنٹیکس کے سربراہ نے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سلسلے میں کہا، "حالیہ مہینوں میں، ترک بارڈر پولیس نے یونان کی سمت میں کم سے کم پانچ بار گولی مار چلائی، تاہم ان میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔"

فرنٹیکس کے چیف نے مزيد کہا کہ اگر "بحران کی صورتحال"پیدا ہوتی ہے تو یہ ایجنسی 1500 اہلکار یونان بھیج سکتی ہے جبکہ پہلے سے وہاں نو سو اہلکار تعینات ہیں۔"

ترکی اور یونان کا راستہ نقل مکانی کے لیے یورپ ميں داخل ہونے کا مقبول اور مصروف ترین راستہ ہے۔ اس سال جنوری اور مئی کے درمیان 12700 واقعات ریکارڈ کیے گئے، جو پچھلے سال سے 28 فیصد کم ہے۔ زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق افغانستان سے تھا۔ اسی طرح مراکش سے بحیرہ روم پار کر کے اسپین پہنچنے والوں کی تعداد بھی تقریبا 3700 تھی، جو پھلے سال کے مقابل ميں 50  فیصد کم تھی۔

 

ک م / ش ج/   ایجنسیاں