1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ میں ایک مشترکہ دفاعی اتحاد بنانے کی تجویز

3 ستمبر 2021

یورپی یونین نے افغانستان سے افراتفری میں فوجی انخلاء کے مضمرات پرتبادلہ خیال کیا ہے۔ جرمنی کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کو ایک ایسا طریقہ کار وضع کرنا چاہئے کہ بروقت ضرورت کہیں بھی فوراً فوج تعینات کی جا سکے۔

https://p.dw.com/p/3zr4M
Gymnich-Treffen in Slowenien
تصویر: Florian Gaertner/photothek/picture alliance

افغانستان میں طالبان نے جس برق رفتاری سے قبضہ کیا اس نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ جس کے بعد یورپی یونین میں اس بات پر غور وخوض جاری ہے کہ اس پوری صورت حال سے کیا کچھ سبق حاصل ہوا۔ اسی دوران جرمنی نے تقریباً ایک دہائی پرانی اس تجویزکو دوبارہ زندہ کر دیا ہے جس میں یورپی یونین کی اپنی ایک ریپیڈ ایکشن فورس بنانے کی بات کہی گئی تھی۔

سن 2007 میں ایک ایسا نظم کیا گیا تھا جس کے تحت 1500 فوجیوں کے دستے کو کہیں بھی فوراً تعینات کرنے کے لیے روانہ کیا جا سکتا تھا۔ تاہم فنڈنگ اور فورس کو تعینات کرنے کے معاملے پر اختلافات کی وجہ سے یہ تجویز سرد خانے میں چلی گئی۔ لیکن افغانستان سے امریکی فورسز کی واپسی کے فیصلے کے بعد ریپڈ ایکشن فورس کا یہ موضوع ایک بار پھر یورپی یونین میں گفتگو کا موضوع بن گیا ہے۔ کیونکہ یورپی یونین صرف اپنے دم خم پر اپنے لوگوں کو بچا کر نکال لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے جہاں افغانستان جیسی سنگین صورت حال ہو۔

حالات بعض اوقات تاریخ کا رخ موڑ دیتے ہیں

یورپی یونین میں خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بورل نے امید ظاہر کی کہ اکتوبر نومبر تک اس حوالے سے ایک منصوبہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا،”بعض اوقات ایسے واقعات ہوتے ہیں جو تاریخ کو نیا موڑ دیتی ہیں، جو کچھ نیا شروع کرتی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہے۔"

بورل نے یورپی یونین سے درخواست کی کہ پانچ ہزار فورسز پر مشتمل ایک ایسا دستہ تیار کیا جائے جسے فوراً کہیں بھی تعینات کیا جاسکے، تاکہ امریکا پر انحصار کم ہو۔ انہوں نے کہا کہ صدر جو بائیڈن مسلسل تیسرے ایسے امریکی صدر ہیں جنہوں نے یورپ کو متنبہ کیا ہے کہ ان کا ملک یورپ کے قریبی مقامات میں جاری غیرملکی دخل اندازی سے اپنا ہاتھ کھینچ رہا ہے۔

’افغانستان میں جرمن فوجیوں کی سلامتی کی ضمانت نہیں‘

بورل کا کہنا تھا،”یہ یورپ کے لیے ایک تنبیہ ہے۔ انہیں اب بیدار ہوجانے کی ضرورت ہے اور اپنی ذمہ داریاں خود اٹھانے کی ضرورت ہے۔"

Slowenien Treffen der EU-Verteidigungsminister
ریپیڈ ایکشن فورس کی تشکیل کے حوالے سے ابھی کئی امور پر اختلافات ہیںتصویر: Slovenian Presidency of the EU

اتفاق رائے میں حائل رکاوٹیں

سلوانیا میں ہونے والی اس میٹنگ میں شریک سفارت کاروں نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ فورس کی تشکیل کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے کیونکہ کئی امور پر اختلافات ہیں۔ سفارت کاروں کے درمیان ابھی اس بات پر اتفاق نہیں ہو پارہا ہے کہ تمام 27ملکوں کی رضامندی کے بغیر فورس کو کسی جگہ فوراً تعینات کرنے کا فیصلہ کس طرح کیا جائے گا۔اس کے لیے تمام ملکوں کی پارلیمان کی منظوری لینی ہوگی اوران میں کچھ ایسے ممالک بھی ہوں گے جو پہلے اقوام متحدہ کی رضامندی حاصل کرنا پسند کریں گے۔

جرمنی کی اس تجویز پر امریکا نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا،”ایک مضبوط اور زیادہ باصلاحیت یورپ ہمارے مشترکہ مفادات کے لیے ضروری ہے اور واشنگٹن امریکی قیادت والے نیٹو دفاعی اتحاد اور یورپی یونین کے درمیان تعاون میں اضافہ کی حمایت کرتا ہے۔"

’ہم افغانستان میں اکٹھے داخل ہوئے اور اکٹھے ہی نکلیں گے‘

نیڈ پرائس نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”نیٹو اور یورپی یونین کو مزید مضبوط اور زیادہ ادارہ جاتی رابطے قائم کرنے چاہئیں  اور ہر ادارے کی اس کی خصوصی صلاحیتو ں کا فائدہ اس طرح اٹھانا چاہئے کہ بہت کم مقدار میں دستیاب وسائل کا نقصان نہ ہو۔"

Verteidigungsminister-Treffen Brdo
جرمن وزیر دفاع آنیگریٹ کرامپ کارین باؤر کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے پاس فوجی صلاحیتیں تو ہیں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ہم اپنی صلاحیتیوں کا مشترکہ طورپر استعمال کیسے کریںتصویر: Darko Bandic/picture alliance/AP

کیا اس طرح کی فورس کا قیام ممکن ہے؟

یورپی یونین کی سب سے مضبوط فوجی طاقتوں میں سے ایک جرمنی تاریخی طورپر اپنی فوج کو دوسرے ملکوں میں تعینات کرنے سے جھجھکتا رہا ہے۔ اب اس کی یہ تجویز یورپی یونین کے مشترکہ فیصلے پر منحصر ہے۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ تمام رکن ممالک اپنی فورس تعینات کرنے کے لیے رضامند ہو جائیں۔

جرمن وزیر دفاع آنیگریٹ کرامپ کارین باؤر نے اے ٹوئٹ کرکے کہا،”یورپی یونین میں جو ملک خواہش مند ہیں وہ تمام اس کا مشترکہ فیصلہ آنے کے بعد قدم اٹھا سکتے ہیں۔"

برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے کے بعد اب ریپیڈ ایکسن فورس کے قیام کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ فرانس کے علاوہ برطانیہ کو بھی ایک مشترکہ دفاعی پالیسی کے تئیں بہت زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔

اعتدال پسندی کے طالبان کے دعوے اور عالمی برادری کے شبہات

کرامپ کارین باؤرنے کہا کہ اہم سوال یہ نہیں تھا کہ یورپی یونین اپنی نئی فوجی یونٹ تعینات کرے گی یا نہیں لیکن بات چیت یہیں ختم نہیں ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا،”یورپی یونین کے رکن ممالک کے پاس فوجی صلاحیتیں تو ہیں۔ لیکن یورپ کی سکیورٹی اور دفاعی پالیسی کے لیے اہم سوال یہ ہے کہ ہم اپنی صلاحیتیوں کا مشترکہ طورپر استعمال کیسے کریں۔"

 ج ا/ ص ز  (روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی)