’یورپ میں مہاجرین کی آمد رکی نہیں‘
15 جولائی 2016عالمی سطح پر امدادی کاموں میں مصروف عمل بین الاقوامی امدادی ادارے کاریتاس کی جرمن شاخ نے کہا ہے کہ یورپ میں شامی مہاجرین کی آمد کا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے جبکہ ہزاروں مہاجرین اور تارکین وطن یونان اور بلقان کی متعدد ریاستوں میں محصور ہیں۔
برلن دفتر میں اس ادارے کے سربراہ پیٹر ناہر کے بقول لاکھوں مہاجرین انتہائی ابتر صورتحال میں بلقان کی ریاستوں میں موجود ہیں، جو شمالی یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں۔
اس ادارے کی سالانہ پریس کانفرنس میں ناہر نے مزید کہا کہ ایسے ممالک کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جہاں یہ مہاجرین پھنسےہوئے ہیں۔
ناہر نے کہا کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کی وجہ سے بحیرہ ایجیئن سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی ہوئی ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مہاجرین کی آمد کا سلسلہ تھم گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر کے اعداد وشمار کے مطابق بلقان کی ریاستوں میں اب بھی پچاس ہزار مہاجرین موجود ہیں، جو شمالی یورپی ممالک کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر مہاجرین ہنگامی شیلٹر ہاؤسز میں رہنے پر مجبور ہیں، جو زیادہ تر منظم مہاجر کیمپوں میں جانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ انہیں ملک بدری کا خطرہ لاحق ہے۔
ناہر کے بقول ایسے بہت سے مہاجرین کو اب بھی امید ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنی من پسند منزل پہنچ جائیں گے۔ انہوں نے یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ وہ یونان اور بلقان کی ریاستوں کو زیادہ بہتر مالی وسائل فراہم کرے تاکہ مہاجرین کے بحران تلے دبے یہ ممالک مناسب اقدامات اٹھا سکیں۔
سن 1987 میں وجود میں آنے والا امدادی ادارہ کاریتاس عمومی طور پر مہاجرین سے متعلق طے پانے والے عالمی معاہدوں کے خلاف ہے۔ یہ ادارہ یورپی یونین کی طرف سے مہاجرین کو لیبیا جیسے ممالک واپس روانہ کرنے کے بھی خلاف ہے۔
ناہر نے کہا کہ اسی طرح افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنا بھی درست نہیں کیونکہ وہاں طالبان کی شدت پسندی میں اضافے کی وجہ سے خطرات بڑھ چکے ہیں۔