یورپ کوافریقہ بننے سے بچا سکتا ہوں، قذافی
31 اگست 2010معمر قذافی کا اٹلی کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان ایک تجارتی معاہدے کی دوسری سالگرہ کے موقع پرکیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز اطالوی وزیراعظم سلویو بیرلسکونی کے ساتھ ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قذافی کا کہنا تھا کہ روم حکومت نے غیر قانونی ہجرت روکنے کے ان کے منصوبےکی تائید کی ہے۔ تاہم اس موقع پر بیرلسکونی کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔
معمر قذافی کا کہنا تھا کہ یہ پیشکش یورپ کے حق میں ہی ہے ورنہ اسی طرح افریقہ سے لوگ غیر قانونی طریقے استعمال کرتے ہوئے آتے رہے توایک دن یہ دوسرا برآعظم افریقہ بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یورپ آنے کے خواہش مند افریقی باشندوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور ان میں سے زیادہ تر لیبیا سے ہوتے ہوئے یورپ کا رخ کرتے ہیں۔ قذافی کے بقول یورپ میں داخل ہونے کے لئے یہ افراد ایسے خطرناک طریقے استعمال کرتے ہیں، جن کے دوران بہت سوں کو اپنی جان سے ہی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ اسی لئے انہیں لیبیا میں روکنا ہی بہتر ہے۔
معمر قذافی گزشتہ41 سالوں سے لیبیا پرحکومت کر رہے ہیں۔ روم اور طرابلس کے باہمی تعلقات میں دو سال قبل ایک تجارتی معاہدے پر دستخط ہونےکے بعد سےگرمجوشی دیکھی گئی ہے اور اس کے بعد سے ہی اٹلی اس شمالی افریقی ملک کا سب سے بڑا یورپی تجارتی ساتھی ہے۔ لیبیا1911ء سے لے کر 1943ء تک اٹلی کی نوآبادی بھی رہا ہے۔ اسی وجہ سے روم حکومت نے ان 32 سالوں کی تلافی کے طور پر ایک17سوکلومیٹر طویل ہائی وے تعمیر کرنے کا وعدہ کیا ہے، جس پر 5 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ اس کے ساتھ ہی یورپی یونین نے لیبیا میں اصلاحات اور یورپ کے ساتھ جمہوری تعلقات بہتر بنانے کے لئے اگلے تین برسوں کے دوران 60 ملین یورو دینے کی پیشکش کی ہے۔
معمر قذافی کسی ملک کا دورہ کریں اور کوئی تنازعہ کھڑا نہ ہو، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ دورہ اٹلی کے دوران انہوں نےکہا کہ یورپ کو اسلام قبول کر لینا چاہیے۔ ان کے اس بیان نے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ معمر قذافی، جس تقریب میں اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے، وہاں پہلے سیشن میں پانچ سو جبکہ دوسرے میں دو سو اطالوی حسینائیں تشریف فرما تھیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان حسیناؤں کو جمع کرنے کی ذمہ داری روم کی ایک ایجنسی کو دی گئی تھی۔ شرائط میں شامل تھا کہ ان کی عمریں 18 سے 35 سال کے درمیان ہونی چاہیں اور لباس عریاں نہیں ہونا چاہیے۔
متعلقہ ایجنسی نے اخبار میں اشتہار دیا، جس میں تحریر تھا کہ جو بھی اس لیکچر میں حصہ لے گا اسے 70 یا 80 یورو دیے جائیں گے۔ تاہم اُن لڑکیوں کو ادائیگی نہیں کی جائے گی، جو ذرائع ابلاغ میں اپنی شناخت ظاہر کریں گی۔ اس کے بعد تقریباً 200 خواتین نے روم میں لیبیا کے ثقافتی مرکز میں اس لیکچر کا دوسرا حصہ سنا۔ لیکچر ختم ہونے کے بعد ایک لڑکی نے بتایا کہ قذافی کا کہنا تھا کہ یورپ کے مقابلے میں لیبیا میں خواتین کو زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے خواتین کو لیبیا میں رشتے تلاش کرنے میں بھی مدد کرنے کی پیشکش بھی کی۔
لیبیا کے صدر معمر قذافی کے اس لیکچر نے اطالوی حلقوں میں ہلچل مچا دی اور ہر جانب سے تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حزب اختلاف رہنما اور سابق وزیر صحت روزی بندی نےکہا کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اورخواتین کی تذلیل کے مترادف ہے۔ جبکہ حکومت میں شامل ماریو یورگیزیوکا کہنا تھا کہ معمر قذافی کا بیان یورپ میں اسلام کے حوالے سے ان کے خطرناک ارادوں کو عیاں کرتا ہے۔
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت : افسر اعوان