1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان، مہاجر کیمپ میں افغان اور پاکستانی مہاجرین کی لڑائی

2 جون 2016

یونان کے ایک مہاجر کیمپ میں پاکستانی اور افغان مہاجرین کے مابین تصادم کے نتیجے میں درجن بھر افراد زخمی جبکہ کم ازکم تیس خیمے نظر آتش ہو گئے ہیں۔ مقامی حکام کے مطابق سکیورٹی فورسز نے صورتحال کو قابو میں کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IyxC
Griechenland Insel Lesbos Auseinandersetzung zwischen Flüchtlingen und der Polizei
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Tsakmakis

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ بدھ کی رات رونما ہونے والے اس پرتشدد واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز کی اضافی نفری طلب کرنا پڑ گئی۔

اے ایف پی کے ایک نامہ نگار نے بتایا کہ افغان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کے مابین اس لڑائی میں پتھروں اورڈنڈوں کا استعمال کیا گیا۔ یہ نامہ نگار لڑائی کے وقت وہیں موجود تھا۔

مقامی پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا، ’’بدھ کی رات اچانک افغان اور پاکستانی مہاجرین کے مابین لڑائی شروع ہو گئی، جس کے نتیجے میں تین افراد شدید زخمی ہو گئے ہیں۔‘‘

بتایا گیا ہے کہ ان شدید زخمیوں میں دو پاکستانی اور ایک افغان مہاجر شامل ہے۔ طبی ذرائع کے مطابق شدید زخمی ہونے والے ان مہاجرین کو ہسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ ان مہاجرین کے سر پر شدید چوٹیں آئی ہیں۔

بدھ کی رات جب افغان اور پاکستانی مہاجرین کے مابین تصادم شروع ہوا تو اس کیمپ سے خواتین اور بچوں کو نکال لیا گیا۔ موریا نامی مہاجر کیمپ میں زیادہ تر کنبوں والے خاندان آباد ہیں۔ یہ وہ مہاجرین ہیں، جنہیں یورپی یونین اور ترکی کی ڈیل کے تحت جلد ہی ترکی واپس روانہ کر دیا جانا ہے۔

فوری طور پر یونانی حکومت نے اس واقعے کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ تاہم یونان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے اس تصادم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمعرات کے دن صورتحال کو قابو میں کر لیا گیا ہے۔ گزشتہ رات اسی تصادم کے نتیجے میں اچانک خیموں میں آگ بھی لگ گئی تھی، جس کی وجہ سے تیس خیمہ جل بھی گئے۔

لیسبوس کے میئر Spyros Galinos کا کہنا ہے کہ وہاں موجود مہاجرین میں پریشانی بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ انہیں واپس ترکی روانہ کر دیا جائے گا۔ اب ان کے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے، ’’اس قسم کی صورتحال سے نفسیاتی اور جسمانی تھکن پیدا ہو رہی ہے اور یہی کیفیت اشتعال انگیزی کا سبب بھی بن رہی ہے۔‘‘

یہ مہاجرین رواں برس کے آغاز پر بحیرہ ایجیئن کے ذریعے ترکی سے یونان پہنچے تھے۔ انہیں ایک مخصوص علاقے میں رہنے کی اجازت دی گئی ہے اور یہ یونان کے کسی دوسرے علاقے کی طرف سفر نہیں کر سکتے۔

بلقان کی ریاستوں کی طرف سے اپنی سرحدی گزرگاہوں کو بند کر دیے جانے کے باعث اس وقت یونان میں مجموعی طور پر پچاس ہزار مہاجرین محصور ہو چکے ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر مہاجرین ایسے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جہاں بنیادی سہولیات بھی نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کےاداروں اور طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ضرورت سے زیادہ بھرے ان کیمپوں میں زندگی بسر کرنے والے یہ مہاجرین نفسیاتی الجھنوں کے علاوہ مختلف بیماریاں کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید