یونان میں معاہدہ طے پا گیا، پاپاندریو عہدہ چھوڑنے پر آمادہ
7 نومبر 2011اتوار کو وزیر اعظم جارج پاپاندریو، حزب اختلاف کے رہنما انٹونس سماراس اور صدر کارولوس پاپولیاس کے درمیان بند کمرے میں مذاکرات دو گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہے۔ مذاکرات کے اختتام پر صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا، ’نئی حکومت کی تشکیل سے متعلق معاہدہ طے پا گیا ہے، جو یورپی کونسل کے فیصلوں کی باضابطہ منظوری دینے کے بعد ملک میں انتخابات کرائے گی‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ وزیر اعظم جارج پاپاندریو نے کہہ دیا ہے کہ وہ نئی حکومت کی قیادت نہیں کریں گے۔ بیان کے مطابق آج یعنی پیر کو وزیر اعظم اور حزب اختلاف کے سربراہ کے درمیان نئے وزیر اعظم اور نئی حکومت سے متعلق مزید مذاکرات ہوں گے۔
ادھر یونانی وزارت خزانہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک کی اہم سیاسی جماعتیں 19 فروری کو انتخابات کرانے پر متفق ہو گئی ہیں۔ وزیر خزانہ ایونجیلوس وینیزیلوس اور ان کے نائب نے نئے سیاسی ڈھانچے کے بارے میں حزب اختلاف کی جماعت نیو ڈیموکریسی کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔
یونان کی حکومت کو کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے سخت دباؤ کا سامنا تھا، جو جارج پاپاندریو کے بقول یونان کو یورو زون میں رکھنے کے لیے اشد ضروری ہے۔
یورپی رہنماؤں میں بھی یونان کے سیاسی تعطل پر سخت مایوسی پائی جارہی تھی کیونکہ وہ اکتوبر کے اواخر میں یورو زون کے قرض بحران سے نمٹنے کے لیے کئے گئے معاہدوں پر فوری پیشرفت کے خواہاں ہیں۔
اتوار کے اخبارات میں شائع ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ یونانی عوام کی اکثریت قومی اتفاق رائے کی حکومت کے حق میں ہے اور وہ ملک کو یورو زون کا حصہ دیکھنا چاہتی ہے۔
یہ معاہدہ ایسے وقت میں طے پایا ہے، جب پیر کو یورو گروپ کے وزرائے خزانہ کے اجلاس میں یونان کو بیل آؤٹ معاہدے کے تحت آٹھ ارب یورو کی قسط حوالے کرنے سے متعلق فیصلہ متوقع ہے۔
یونانی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان معاہدے کے باوجود ایتھنز پر کفایت شعاری کے اقدامات کے دباؤ میں کوئی کمی آنے کا امکان نہیں ہے۔ نئی حکومت کو یورپی یونین کے بیل آؤٹ پیکج کی کڑی شرائط پر عملدر آمد کا کام سونپا جائے گا، جس کے تحت یونان میں مزید سخت بچتی اقدامات متوقع ہیں۔ یہ کام اتنا آسان ثابت نہیں ہو گا کیونکہ یونان میں معیشت کی زبوں حالی اور بیروزگاری کی بلند شرح کے باعث پہلے ہی حالات کافی سخت ہیں۔
گزشتہ ہفتہ یونانی سیاست میں کافی اضطراب انگیز ثابت ہوا تھا۔ وزیر اعظم جارج پاپاندریو نے پیر کو اچانک اعلان کیا تھا کہ وہ بیل آؤٹ معاہدے کی سخت شرائط پر عوام کو اعتماد میں لینے کے لیے ریفرنڈم کرائیں گے۔ تاہم فرانس میں جی ٹوئنٹی کے اجلاس میں یورپی رہنماؤں کی سخت سرزنش کے بعد انہوں نے یہ تجویز واپس لے لی تھی۔
اس کے بعد انہیں پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑا جو انہوں نے انتہائی معمولی فرق سے حاصل کیا۔ تاہم حزب اختلاف کی جانب سے ان پر اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیے دباؤ کافی زیادہ بڑھ گیا تھا، جس کے بعد اتوار کو انہوں نے اپنا عہدہ چھوڑنے اور نئی حکومت کے لیے جگہ بنانے پر آمادگی ظاہر کر دی۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عاطف بلوچ